اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے حماس کا پس منظر، غزہ کی پچھلے دو عشروں کی صورتحال اور عرب اسرائیل جنگوں کا مختصر جائزہ لیا تھا۔ اس وقت پورے عالمی میڈیا پر یہی سوال گردش کر رہا ہے کہ حماس نے اسرائیل کے جدید ترین ٹیکنالوجی اور بے پناہ افرادی قوت سے لیس انٹیلی جنس اور عسکری نیٹ ورک کو کیسے ناکام بنایا؟ یہ واقعی ملین ڈالر سوال ہے۔ ایک ایسی تنظیم جس کے پاس وسائل بہت کم ہیں، پچھلے سولہ برسوں سے جس کی معاشی، اقتصادی ناکہ بندی جاری ہے، شدید پابندیاں عائد ہیں، جنہیں عملی طور پر ایک محدود دائرے میں مقید کیا ہوا ہے۔ وہ تنظیم کیسے اتنا بڑا، منظم ، پیچیدہ اور بیک وقت کئی اطراف سے اسرائیل پر ایسا زبردست شاکنگ اٹیک کر سکتی ہے ؟ ایسا مگر ہوچکا ہے۔ حماس کے اٹیک نے اسرائیلی دفاع کو کچھ دیر کے لئے مفلوج کر کے رکھ دیا، اسی وجہ سے ان کا اتنا زیادہ جانی نقصان ہوا۔ کہا جارہا ہے کہ حما س کے جنگجوئوں کے حملوں میں ایک ہزار سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں بہت سے فوجی بھی شامل ہیں، ڈھائی تین ہزار لوگ زخمی ہوئے، بعض اندازوں کے مطابق گیارہ سو اسرائیلی کام آئے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ آخر ہر کوئی اسرائیلی انٹیلی جنس کی ناکامی اور حماس کے سرپرائز کا ذکر کیوں کر رہا ہے۔ دراصل غزہ کی پٹی بحیرہ روم کے کنارے واقع ہے، اس کے ایک طرف سمندر ہے تو باقی اطراف میں اسرائیل اور مصر۔ ان کے علاوہ کسی ملک کی سرحد غزہ سے نہیں ملتی۔ غزہ بڑا شہر بھی نہیں، لاہور کا چوتھا حصہ سمجھ لیں۔ بمشکل بائیس تیئس لاکھ لوگ رہتے، اکتالیس کلومیٹر لمبی اور پچیس کلومیٹر چوڑی پٹی ہے۔جگہ کم اور آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ بہت گنجان آباد شہر ہے ۔ زیادہ تر اونچی عمارتیں اس لئے ہیں کہ رہنے کے لئے زیادہ جگہ نہیں۔ غزہ میں شرح پیدائش بھی خاصی زیادہ ہے، تین فیصد کے قریب۔ شائدا س کی وجہ اسرائیلی حملوں میں مسلسل فلسطینی عوام کا شہید ہونا ہے ، مقامی لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی آبادی زیادہ ہوکہ فلسطینیوں کومٹانے کا اسرائیلی ناپاک خواب کبھی پورا نہ ہوسکے ۔ اسرائیل نے غزہ کے گرد بڑی زبردست قسم کی حفاظتی باڑ اور دیوار لگا رکھی ہے۔ جدیدترین حساس آلات اور سنسر سے لیس انتظامات ہیں۔ بے شمار چیک پوسٹیں، پیٹرولنگ فورس اور ریموٹ کنٹرول گنیں جن کے سنسر کسی فرد کی موجودگی بھانپ کر ازخود فائرنگ بھی شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے غزہ والوں کا بہت سخت محاصرہ اور ناکہ بندی کر رکھی ہے، شہر میں اشیائے ضروریہ کی شدید قلت رہتی ہے اور اکثر کھانے پینے کی چیزیں بھی کم ہوجاتی ہیں۔ اہل غزہ نے اس کا توڑ کرنے کے لئے مصرکی سرحد کے ساتھ مختلف جگہوں پر طویل سرنگیں کھود رکھی ہیں تاکہ وہ کسی طریقے سے مصرسے سامان غزہ سمگل کر سکیں۔مصری پولیس کرپٹ اور نالائق ہے تو سمگلنگ وغیرہ چلتی رہتی ہے۔’’ رفاہ کراسنگ‘‘ مصر کا وہ راستہ ہے جہاں سے غزہ جایا جا سکتا ہے، یہ برسوں سے بند ہے۔ جب اخوا ن المسلمون کے ڈاکٹر مرسی مصر کے صدر تھے تو سال ڈیڑھ کے لئے یہ کراسنگ کھول دی گئی تھی۔ اس کے بعد سختی سے پابندی لگا دی گئی۔ اسرائیل کی مالی معاونت سے مصر نے غزہ کی سرنگوں کو بند کرنے کے لئے تمام تر انتظامات کر رکھے ہیں، باڑ بھی لگارکھی ہے۔ غرض مصر اور اسرائیل کی ہر ممکن کوشش ہے کہ غزہ میں ہتھیار ، سازوسامان اور اشیائے ضرورت نہ جا سکیں۔ اس پس منظر میں یہ بڑا حیران کن ہے کہ حماس نے نہ صرف اتنے جدید راکٹ بنا لئے جواسرائیلی دارالحکومت تل ابیب اور دیگر شہروں تک مار کر سکیں۔ جدید گنیں، گلائیڈر ، کشتیاں اور دیگر بھاری ہتھیارجن کی مدد سے یہ حملہ ہوا، جسے طوفان الاقصیٰ آپریشن کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ ہے کہ اسرائیل کی اتنی بڑی انٹیلی جنس ایجنسی موساد اس بری طرح ناکام کیسے ہوگئی ؟ موساد کے پاس تمام تر ٹیکنالوجی اور مالی وسائل کے ساتھ بہت لمبا چوڑا افرادی قوت کا نیٹ ورک ہے۔ موساد نے غزہ میں حماس اور مغربی کنارے میں پی ایل او کی صفوں میں اپنے بہت سے مخبر شامل کر رکھے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے لبنان، مصر، ایران وغیرہ میں بھی اپنا اچھا خاصا نیٹ ورک بنا رکھا ہے، جہاں سے وہ اطلاعات جمع کرتے رہتے ہیں۔ جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں، ان کے مطابق موساد کسی بھی قسم کی پیشگی وارننگ یا اطلاع دینے میں ناکام رہی۔ انہیں قطعی اندازہ نہیں ہوسکا تھا کہ حماس کی عسکری قوت اس قدر بڑھ چکی اور اتنے وسیع پیمانے پر کوئی کثیرالجہتی حملہ ہوسکتا ہے۔ صرف انٹیلی جنس ہی ناکام نہیں ہوئی بلکہ بارڈر فورس، پٹرولنگ دستے، چیک پوسٹیں وغیرہ بھی اندازہ نہیں لگا سکی اور کوئی فوری جواب دینے میں ناکام رہیں۔ حملے کے ابتدائی تین چار گھنٹوں تک فوج بھی ریسپانس میں نہیں پہنچی۔، اسی وجہ سے حماس کے جنگجو اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو اغوا کر کے واپس غزہ لے جانے میں کامیاب ہوگئے ۔ ایک اور بڑی ناکام اسرائیل کے بہت مہنگے اینٹی میزائل سسٹم آئرن ڈوم کی ہے۔ اس سسٹم کی ذمہ داری تھی کہ غزہ سے پھینکے جانے والے میزائل ہوا ہی میں تباہ کر سکے۔ ماضی میں حماس کے نوے فیصد پھینکے گئے میزائل یہ آئرن ڈوم تباہ کر دیتا تھا۔ اس بار ڈوم ناکام رہا اور حماس کے بہت سے میزائل اسرائیلی شہروں ، فوجی تنصیبات اور علاقوں پر گرے۔ موساد کی فون اور انٹرنیٹ کمیونکیشن وغیرہ ریکارڈ کرنے اور مختلف مقامات بگ کرنے کی صلاحیت بھی بری طرح ایکسپوز ہوئی ہے۔ ماضی میں موساد نے حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کے علاوہ کئی عرب اور ایرانی منصوبوں کو قبل از وقت ٹریس کر کے ناکام بنایا۔ اس بار اسرائیلیوں کی یہ صلاحیت بھی صفر ہوگئی۔ سوال پھر یہی ہے کہ حماس نے ایسا کس طرح ممکن کر دکھایا؟ ممکن ہے کبھی حماس کے اندرونی حلقے میں سے کوئی تفصیل سے بتائے ، سردست تو جو مختلف اطلاعات کے ٹکڑے چھن چھن کر آرہے ہیں، ان سے بنائی جانے والی تصویر کے مطابق حماس نے اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا اور وہ سب کچھ کیا، جن کا اسرائیلی تصور بھی نہیں کر رہے تھے۔ سب سے اہم حماس کے آپریشن کا خفیہ رہنا ہے۔اصل خبر لیک نہیں ہوسکی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت ہی محدودحلقے میں اس پر کام ہوتا رہا۔ اطلاعات خفیہ رکھی گئیں، الیکٹرانک آلات استعمال نہیں ہوئے، ای میل، واٹس ایپ اور موبائل فون رابطوںمیں بالکل ہی استعمال نہیں ہوئے۔ لگتا ہے اہم ملاقاتیں بھی کھلی جگہوں پر ہوئیں جہاں بگ کئے جانے کا خطرہ ہی نہ ہو۔ اندازہ ہے کہ چونکہ یہ آپریشن بہت بڑا اور وسیع تھا، زمینی، فضائی اور بحری راستوں سے حملے کرنے تھے، اس لئے اس کے مختلف حصے بنا کر الگ الگ گروپ ان پر کام کرتے رہے، اسی وجہ سے معاملہ دبا رہا، نمایاں نہیں ہوا۔ ایک بڑاعنصر حماس کا عزالدین قسام بریگیڈ ہے۔ پچھلے کالم میں یہ بتایا تھا کہ حماس کا یہ عسکری ونگ نہایت خفیہ بنیادوں پر استوار ہے اور عام شہریوں کو قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے اندر سے کون سا نوجوان اس بریگیڈ کے لئے کام کر رہا ہے۔ اسی خفیہ نوعیت کی وجہ سے جب عزالدین قسام بریگیڈ کے جنگجو اس آپریش کی پلاننگ کر رہے تھے یاانہوں نے اسے عملی جامہ پہنایا تو یہ سب چیزیں خفیہ رہ گئیں۔ پچھلے چند ماہ میں دانستہ غزہ کو نسبتاً پرسکون رکھا گیا اور اس کے بجائے ویسٹ بنک میں فلسطینی عوام نے اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرے کئے۔ وہاں بنائی جانے والی اسرائیلی آبادکار بستیوں اور مقامی فلسطینیوں میں ٹکرائو اور فائرنگ وغیرہ کی خبریں بھی آتی رہیں۔ عین ممکن ہے کہ دانستہ ایسا کیا گیا ہو تاکہ اسرائیلی فورسز اور انٹیلی جنس کی توجہ غزہ کے بجائے ویسٹ بینک (مغربی کنارے)کی طرف مبذول ہو۔ حملے کے لئے ایسے دن کا انتخاب کیا گیا جب اسرائیلی فورسز اور ریاستی حکام اپنی نجی سرگرمیوں میں مصروف ہوں۔ حملہ پھر ایسا شدید اور اچانک ہونے کے ساتھ بہت ہی تیز رفتار تھا، اتنا تیز کہ اسرائیل کو ریسپانس کا وقت ہی نہیں مل سکا۔ تیزرفتار حملے سے اسرائیلی بارڈر اور پٹرولنگ فورس مفلوج ہوگئی اور حماس کے جنگجوئوں کو اپنے پلان پر پورا عمل کرنے کا وقت مل گیا۔ اتنی بڑی تعداد میں اس قدر زیادہ راکٹ پھینکے گئے کہ آئرن ڈوم حفاظتی نظام بھی کام نہ کر سکا۔ راکٹ پھینک کر توجہ دوسری طرف کی اور پھر مختلف کراسنگ عبور کر کے حملے کئے گئے۔ حملہ بھی ایسا کہ ایک پچیس میل ادھر ہوا ، دوسرا بالکل ہی دوسری طرف سے۔ ڈرون ، گلائیڈر سے حملے ہوئے، کشتیوں سے بھی۔ یہ ملٹری سٹریٹجی کا ایک بے مثال نمونہ تھا۔ آنے والے دنوں میں دنیا بھر کی ملٹری اکیڈیمز اس حملے پر بات کرتی رہیں گی۔ حماس نے اپنے حملے کے ذریعے جو کچھ کرنا تھا ، وہ کر دکھایا۔ اب اسرائیل کے جواب کا معاملہ ہے۔ اس پر بہت کچھ منحصر ہے۔حماس کی بقا،فلسطینی اتھارٹی کا مستقبل، مشرق وسطیٰ کا امن، شدت پسند مذہبی تنظیموں کا تقویت پانااور اسلامی دنیا میں بڑھتا اضطراب۔ اس پر الگ سے ان شااللہ بات کریں گے۔