کچھ لوگوں کی شخصیت ایسے پھولوں کے مانند ہوتی ہے جو پھول ان کے موت کے بعد زیادہ مہکتے ہیں۔ اس شاعرانہ سی بات کو ہم اس طرح بھی بیان کرسکتے ہیں کچھ لوگوں کو دنیا جانے کے بعد پہچانتی ہے۔ ایسی ہی بات کو شاہ عبد الطیف بھٹائی نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے : ’’ان لوگوں نے اپنے تن پر چاہت کی چادر ڈال دی وہ ایسے لوگ تھے جیسے اس دنیا میں آئے ویسے ہی واپس لوٹ گئے ایسے لوگوں کی بلندی بہت دنوں کے بعد نظر آئے گی‘‘ جس قسم کے انسانوں کی بات ہم سوچ رہے ہیں ایسے انسان تاریخ انسانی میں تھوڑے نہیں بہت زیادہ ہیں مگر ان لوگوں کے حوالے سے بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ایسے لوگ تاریخ کی صفحات میں جگہ نہیں پاتے۔ ہم اس کمی کی شکایت کرسکتے ہیں اور ہمیں کرنی بھی چاہیے مگر وہ لوگ ایسے ہوتے ہیںجن کو اس بات کی پروا بھی نہیں ہوتی ہے کہ تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف سے لکھا گیا کہ نہیں ۔ وہ تاریخ کی کتاب میں اپنا نام تحریر کروانے کی تمنا بھی نہیں رکھتے تھے۔ حالانکہ ایسے لوگ اس دھرتی کا حسن ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جب زندہ ہوتے ہیں تو ہمیں ان کے وجود کااحساس تک نہیں ہوتا مگر ایسے لوگ جب مرجاتے ہیں تو اپنے پیچھے بہت بڑا خلا چھوڑ جاتے ہیں وہ خلا بھرنے کے لیے وقت کو بڑا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں وہ انسان بھی شامل ہے جس کی میت رواں ماہ کی نو تاریخ کو امریکہ سے کراچی پہنچ رہی ہے۔ گذشتہ ایک ہفتے سے ان کی باتیں سندھ کے سوشل میڈیا پر گونج رہی ہیں۔ ہر ایک دیکھنے والی آنکھ اس شخص کے بارے میں اشکبار ہے جو نہ صرف بہت بڑا عالم بلکہ بہت بڑا نسان بھی تھا۔ اس کے بارے میں یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ عالم بڑا تھا یا انسان؟ کبھی کبھی علم اور عمل کے درمیان بہت بڑا سخت مقابلہ ہوجاتا ہے۔ اس شخص کے حوالے سے بھی یہ مقابلہ آسان نہیں جس شخص کو پچھلے ہفتے امریکہ میں ایک جنونی شخص نے قتل کردیا۔ سندھ کی دھرتی پر جنم لینے والا پاکستان کا وہ بیٹا جہاں جہاں رہا وہاں اس نے اپنی شخصیت کے ان مٹ نقوش چھوڑے۔ اس شخص کے قتل کی خبر امریکہ کے بڑے اخبار واشنگٹن پوسٹ میں بھی شائع ہوئی اور اس کے قتل کے حوالے سے امریکہ کی الیکٹرانک میڈیا نے بھی دو چار رپوٹس پیش کی ہیں مگر امریکی میڈیا کو بھی پوری طرح معلوم نہیں کہ ان کی دھرتی پر کتنا بڑا سانحہ ہوا ہے۔ امریکی میڈیا کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ فلسفے کا پروفیسر تھا۔ اس کی شریک حیات وائس آف امریکہ سے منسلک تھیں۔ اس کا بہنوئی پرویز ہود بائی اس ملک کا دانشور اور سائنسدان ہے۔ مگر سندھ کے تاریخی شہر شکارپور میں پیدا ہونے والا جاوید بھٹو ان سارے حوالوں سے بہت بڑا شخص ہے جو اس کے بارے میں پیش کیے جارہے ہیں۔ جاوید بھٹو ان چند سندھی دانشوروں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی مرضی کی زندگی جینے کو ترجیح دی۔ کیا آپ تصور بھی کرسکتے ہیں ایک غریب باپ کا بیٹا کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے دوسرے برس کے دوران میڈیکل کی سیٹ چھوڑ کر کراچی یونیورسٹی میں فلسفے کی شعبے میں داخلہ لے؟ یہ بات حیرت بھری ہے مگر اس کی ہر بات حیرت سے بھری ہوئی تھی۔ اس شخص نے ترقی پسند سیاست کی ابتدا این ایس ایف سے کی مگر بہت جلد اس نے مرحوم رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور بہت جلد اس کو صرف اس حوالے سے چھوڑا کہ مظلوم کی کوئی زبان نہیں ہوتی ۔ مظلوم کی کوئی قومیت نہیں ہوتی۔ وہ رسول بخش پلیجو کو چھوڑ کر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے منسلک ہوگئے مگر وہاں بھی ان کی شخصیت ان کے نظریات کے حوالے سے بحث کا موضوع بنی رہی۔ وہ فلسفے کے طالب علم تھے ‘ان کی نظر میں مادیت کا نظریہ انسانی ذات کے شعور سے زیادتی کا سبب تھا۔ انہوں نے فلسفے سے زیادہ تاریخ اور عالمی ادب کا مطالعہ کیا تھا۔ ان کو معلوم تھا کہ انسان کو فزیکل سائنس کے حوالے سے پیش کرنا اس کی حیثیت کے ساتھ ناانصافی ہے۔ وہ سیاسی طور پر بہت باشعور تھے مگر جیسے جیسے ان کے علم میں اضافہ ہوا انہوں نے سیاسی سرگرمیاں کم کردیں۔ ان کے دل میں آخری ایام کے دوران تصوف کا چراغ روشن ہوا تھا اور وہ اس چراغ کی روشنی میں سندھ کے نئے پروانوں کو پکارتا رہا۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ وہ سندھ کے لوگوں کو تاریخ سے جوڑے اورا ن کے لیے سوچ کی نئی جہتیں تراشے۔ وہ صرف ایک عالم نہیں تھے مگر وہ ایک آرٹسٹ بھی تھے اور ان کا آرٹ بازار کے لیے نہیں تھا۔ وہ ایک معصوم مصور کی طرح اپنے لیے تصاویر بناتے اور جب بہت اداس ہوجاتے تب وہ صوفی موسیقی میں پناہ لیتے۔ وہ گذشتہ پندرہ برسوں سے امریکہ میں مقیم تھا مگر اس نے ڈالروں کی دنیا میں بھی صرف علم میں اضافہ کیا۔ اس عالم اور اس آرٹسٹ شخص کو واشنگٹن میں ایک سیاہ فام شخص نے صرف اس لیے قتل کیا کیوں کہ اس نے اس کے مالک مکان سے شکایت کی تھی کہ ان کا کرایہ دار پوری رات نشہ کرکے ہنگامہ کرتا ہے اور وہ اس قدر تمباکو نوشی کرتا ہے کہ اس کے نچلے والے اپارٹمنٹ سے اٹھنے والے دھوئیں کی وجہ سے گیلری میں بیٹھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ بس صرف اتنی سی بات پر اس شخص نے جاوید بھٹو پر گولیاں چلائیں اور اس کو معلوم نہ تھا کہ وہ ایک انسان کی صورت میں اس دنیا کو ایسے انسان سے محروم کر رہا ہے جو انسان احساس اور عقل کا خوبصورت سنگم تھا۔ جاوید بھٹو کے جسم سے بہنے والے خون نے نہ صرف سندھ کی مڈل کلاس بلکہ سندھ حکومت کو بھی بیدار کردیا۔ اس وقت سندھ کے نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی اس شخص کے لیے ماتم برپا ہے جس شخص کو اس کے قتل سے قبل بہت کم لوگ جانتے تھے۔ اب لوگوں کو معلوم ہوا ہے کہ جاوید بھٹو اس شعوری اور نظریاتی قافلے کا مسافر تھا جو تاریخ کی تنہا اور بہت اداس رات میں ایک دوسرے سے بچھڑ گیا۔ جاوید بھٹو صرف بائیں بازو کے بکھرے ہوئے قافلے کا مسافر نہیں تھا مگر اس قبیلے کا فرد بھی تھا جس قبیلے کا رشتہ کتاب سے تھا۔ وہ قبیلہ اب اس ملک میں کم ہوتا جا رہا ہے۔ وہ قبیلہ خطرے کا سامنا کرنے والے نسل کی طرح ہے۔ ہم اس قبیلے کی بات کر رہے ہیں جو قبیلہ آپس میں سیاسی اور نظریاتی اختلافات رکھنے کے باوجود بھی ایک جیسی اخلاقیات سے جڑا ہوا تھا۔ یہ وہ قبیلہ تھا جس قبیلے میں اصل دولت علم کی سمجھی جاتی تھی۔ یہ وہ قبیلہ تھا جس قبیلے کے ذہن میں دنیا کو تبدیل کرنے کا ایک خواب تھا۔ وہ قبیلہ تاریخ کی طوفان میں بکھر گیا مگر اس قبیلے کی کمی ہر ملک میں شدت سے محسوس ہوتی رہے گی۔ اس قبیلے کا کوئی بھی فرد وہ کہیں بھی رہے مگر اس کا رشتہ اپنے اس مرکز سے ہوتا ہے جس مرکز کو اجتماعی مقصد سمجھا جاتا ہے۔ اس قبیلے کا ایک اجتماعی مقصد تھا۔ وہ اجتماعی مقصد اب بھی ہے۔ اس اجتماعی مقصد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے مگر اس مقصد کو پورا کرنے والے مشن سے وابستہ افراد کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تاریخ اس کمی کو افورڈ نہیں کرسکتی۔ اس لیے جب بھی اس ٹوٹی ہوئی مالا کا کوئی موتی مٹی میں مل جاتا ہے تب اس کا نقصان پورا قبیلہ محسوس کرتا ہے۔ جاوید بھٹو کے جنازے کو کندھا دینے والے لوگ کافی ہیں مگر وہ سب لوگ جانتے ہیں ان کے جنازوں کو کندھا دینے والے بہت کم ہونگے۔ مگر اس بات کو جانتے ہوئے بھی ان کو کوئی افسوس نہیں ہے۔ وہ لوگ اس بات کی فکر نہیں کرتے کہ ان کی زندگی میں ان کے ساتھ کتنے ساتھی رہے اور مرنے کے بعد ان کو کتنے دوستوں کا کندھا مل پایا۔ وہ لوگ اکیلے آتے ہیں اور اکیلے جاتے ہیں۔ ان کے جانے سے دھرتی کی تنہائی بہت بڑھ جاتی ہے۔