حکومت کو خود پتہ نہیں ہے یا وہ وضاحت نہیں کر پا رہی۔ اتنے بڑے بڑے دعووئوں کے بعد کہ اگر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو خود کشی کو ترجیح دیں گے۔عمران خان کی حکومت ہر محاذ پر خصوصاً کرپٹ لوگوں کی گرفتاری پر پوری آواز کے ساتھ بول رہی ہے لیکن اس مسئلے پر گنگ سی ہو کر رہ گئی ہے۔اس بارے میں جتنی طویل خاموشی ہو گی اتنی ہی جلدی عوام میں پزیرائی میں کمی واقع ہو گی۔اللہ بھلا کرے میاں نواز شریف کا جنہوں نے حکومت کی مشکل کسی طور آسان کر دی۔ وہ اچانک انتہائی معصومیت سے سچ بول جاتے ہیں۔ جیسے انہوں نے پانامہ کیس آنے کے بعد اپنے ایک خطاب میں یہ سچ بولا تھا کہ کیا کوئی کرپٹ آدمی لوٹی ہوئی دولت اپنے نام پر رکھ سکتا ہے ۔ بعد کی تمام عدالتی کاروائی سے پتہ چلا کہ انکے نام واقعی کوئی جائیداد نہیں ہے سب کچھ بچوں کے نام ہے۔ احتساب عدالت میں پیشی کے بعد انہوں نے گزشتہ روز فرمایا کہ اگر آمدن سے زیادہ جائیداد ہونے پر پکڑ دھکڑ ہوتی رہی تو کوئی بھی نہیں بچے گا۔ایک طرح کا اقرار ہے کہ یہاں پر ہر کسی نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اور یہی وہ وجہ ہے کہ ہر حکومت کوآتے ہی آئی ایم ایف کا رخ کرنا پڑتا ہے یا کہہ لیں ادھار لے کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔پھر میاں صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور میںاچھی روایات قائم کیں اور کسی کے خلاف کیس نہیں بنایا۔ اسی طرح آصف زرداری نے بھی اپنے دور میں کیا تھا۔ میاں نواز شریف جس کو اچھی روایت کہہ رہے ہیں اسکو دوسرے لفظوں میں مک مکا کہا جاتا ہے۔گزشتہ دس سال میں یہ مک مکا نہ ہوتا تو پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) کی ہی حکومت ہوتی اور تحریک انصاف کو شاید کبھی موقع نہ ملتا کہ وہ صرف مرکز ی نہیں تین صوبوں میں بھی حکمرانی کرے۔ سرکاری مال کی لوٹ مارہی وہ اسباب ہیں کہ کسی حکومت کو ادھار لئے بغیرمالی معاملات کو آگے بڑھانے میں دقت پیش آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر حکومت نے آتے ہی جانے والی حکومت کا ماتم کیا ،خزانہ خالی ہونے کے دعوے کئے اور اسی کی آڑ میں مزید ادھار لے لیا۔ادھار لینے میں شاید کوئی حرج نہیں ہے لیکن ادھار جس مقصد کے لئے لیا جاتا ہے اس پرخرچ نہیں ہوتا۔ زیادہ تر لوگوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے بچا کچھا ڈوبتے ہوئے حکومتی اداروں کو دے کر روزانہ کی بنیاد پر کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کوئی ایسا ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا کہ ملک کی معیشت اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو سکے۔ہمارے ہاں ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھنے کا نام نہیں لے رہی۔ کہا جاتا ہے کہ آج سے دس سال پہلے جتنے ٹیکس دہندگان تھے وہی آج بھی ہیں جن میں تقریباً چھ لاکھ سرکاری ملازمین اور ایک لاکھ کے قریب پرائیویٹ سیکٹر کے لوگ ہیں جنکی تنخواہ سے حکومت یا کاروبار کے مالک ٹیکس کاٹ لیتے ہیں جسکو At Sorcue Deductuion کہتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کا ٹیکس تو جمع ہو جاتا ہے پرائیویٹ ملازمین کے ٹیکس کے قومی خزانے میںجمع ہونے کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام ٹیکس بالکل نہیں دیتے۔ ہرغریب اور امیر روزانہ کی بنیاد پر اربوں روپے ٹیکس کی مد میں ادا کر رہا ہے بھلے اس پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ ان ڈائریکٹ ٹیکسز ہیں جو سیلز ٹیکس ، ایڈوانس انکم ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس اور دوسرے ٹیکسوں کی مد میں لئے جا رہے ہیں۔ مصنوعات پر جو ٹیکس ہم ادا کر رہے ہیں ان کے سرکاری خزانے میں سو فیصد جمع ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔نہ ہی کسی حکومت نے یہ کوشش کی ہے کہ ٹیکس کے نظام کو اس قدر سادہ ، آسان اور خوف سے مبراء کر دیا جائے کہ لوگ خوشی خوشی ٹیکس ادا کریں۔نہ ہی لوگوں کو یہ یقین دلایا جا سکا ہے کہ انکے ٹیکس کی رقم سے انکی صحت ، تعلیم، سکیورٹی اور دوسری ضروریات کا خیال رکھا جائے گا۔جو قوم ہر چیز پر ٹیکس دے رہی ہے لیکن بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھا رہی ہے، سکیورٹی کے لئے پرائیویٹ گارڈز ہیں، پانی خرید کر پی رہی ہے، زیادہ تر بجلی جنریٹر اور یو پی ایس یا سولر پینل سے حاصل کر رہی ہے، سفر ذاتی خرچ پر کر رہی ہے وہ قوم ٹیکس دے کر حکمرانوں کی عیاشیوں کے اخراجات کیوں اٹھائے۔ اور میاں صاحب فرماتے ہیں کہ آمدن سے زیادہ اثاثے ہیں تو تمہیں اس سے کیا۔ ڈنگ ٹپائو حکومت تو فوجی ڈکٹیٹر بھی کرتے رہے ہیں۔ آپ نے ووٹ کو عزت دینی تھی لیکن ووٹر کے جسم سے کپڑے بھی اتار کر چلتے بنے اور اب کہہ رہے ہیں کہ انتقامی کاروائیاں نہیں ہونی چاہئیں۔اگر گزشتہ دس سالوںمیں اورا س سے پہلے کے اپنے ادوار حکومت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہوتا تو ملک میں ہر پانچ سال بعد خزانہ خالی ہونے کا شور نہ اٹھتا۔ صحیح یا غلط اس نعرے کی آڑ میں تحریک انصاف کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان نہ کرنا پڑتا ۔اپنی تمام تر تنقید میں سابقہ حکمران یہ بتانے میں مسلسل ناکام رہے ہیں کہ انہوں نے معیشت کی بہتری کے لئے کیا اہم اقدام کئے ہیں۔اب ملک کو آگ لگا کر اب بغلیں بجا رہے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ملک کو ایسی حالت میں پہنچا کر تحریک انصاف کو ناکامیوں کے طعنے دے رہے ہیں۔ کرے ہے قتل بھی اور خود ہی لے ثواب الٹا تحریک انصاف کے لئے آئی ایم ایف سے قرض لینا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، اصل چیلنج ان قباحتوں سے بچنا ہے جو سابقہ حکومتیں معاشی میدان میں کرتی رہی ہیں۔اگر بین الاقوامی اداروں سے قرض لے کر اسکا استعمال وہی ہو گا جو پہلی حکومتیں کرتی رہی ہیں تو پانچ سال بعد پھر نئی حکومت اور پرانی باتیں ہوں گی۔ اور خزانہ تو سابق حکومت ہمیشہ خالی ہی چھوڑ کر جاتی ہے۔