آج سے دو ڈھائی سال ادھر کی بات ہے کہ اس ملک کے قومی ہیرو عمران خان کہ جس کی گفتگو، ارادوں اور اعمال سے ہمیشہ خلوص، حُب الوطنی اور اولالعزمی کی خوشبو آئی، سے متعلق یہ چار مصرعے میرے اوپر وجدان کی صوت اترے تھے: خواب دیکھے ہیں تو تعبیر بھی لازم ہوگی آنکھ میں اشک ہیں تاثیر بھی لازم ہوگی عصرِ بد رنگ سے فرصت تو میسر آ لے قصرِ خوش رنگ کی تعمیر بھی لازم ہوگی مَیں اپنے اس موقف پہ آج بھی اگر دل و جان سے قائم ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھ میں کوئی جیالا نما وائرس ورود کر گیا ہے۔ پھر مجھے کوئی ایسا سیاسی ہُڑک بھی نہیں ہے۔ نہ دانشوروں جیسی شکل ہے، نہ تجزیہ کاری کا سلیقہ۔ نہ کسی رشتے دار کے لیے نوکری کی طلب ہے نہ کسی محکمانہ ترقی کا ہَوکا۔ کسی سکیم میں پلاٹ کی تمنا ہے، نہ بلا سود قرضے کی خواہش۔ کسی دوست کی پوسٹنگ کرانی ہے، نہ کسی دشمن کا تبادلہ۔ کسی سیاسی جماعت سے خاندانی قسم کی آلودہ محبت ہے، نہ کسی پارٹی سے خدا واسطے کا بَیر! زندگی میں اپنے رب کے سوا نہ کبھی کسی سے کچھ مانگا ہے، نہ ضرورت محسوس ہوئی ہے اور اس بات پہ بھی پختہ یقین ہے کہ اور کوئی اس کی استطاعت بھی نہیں رکھتا۔ مَیں تو پتہ نہیں کب سے کتاب میں رہنے اور قلم سے کہنے کی عیاشی میں مبتلا ہوں۔ کپتان سے وابستہ میری اس خوش فہمی کی سیدھی سادھی وجہ تو یہ ہے کہ مجھے اس کی استقامت اور دیانت پہ بھروسہ ہے۔ اس کے آنے کے بعد پاکستان کا بین الاقوامی امیج بہتر ہوا ہے۔ اس نے سابق وزیرِ اعظم کی طرح خارجہ وزارت اپنے گوڈے کے نیچے دبا کے نہیں رکھی، بلکہ اس سے بہت سے مثبت کام لیے ہیں۔ اس کے کشمیر، فلسطین، ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، چین، ترکی، روس، عراق، افغانستان کے ساتھ ساتھ اسلاموفوبیا کے حوالے سے کیے گئے اقدامات قابلِ قدر ہیں۔ پھر یہ بھی ہوا کہ اس عرصے میں اپوزیشن کی اقتدار کی ہوس اور نمایاں ہو کے سامنے آ گئی ہے۔ ہوس بھی ایسی کہ جس کا پیٹ بھرنے کے لیے وہ قومی سلامتی، ملکی دفاع، عوامی مفادات اور حکومتی وقار، سب کچھ داؤ پہ لگانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اس مختصر سے دورانیے میں انھوں نے اپنی بیماریوں، عیاریوں حتیٰ کہ اپنے اتحادیوں سے متعلق قوم سے اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ خود جھوٹ اگر پاؤں پاؤں چلتا میدان میں آ جائے تو پاؤں پکڑ کے اِن کا مرید ہو جائے یا سرِ بازار خود کُشی کر لے۔ اپنی بد اعمالیوں کی پاداش میں اور دھونس دھاندلی کے دیرینہ تجربے کے باوجود الیکشن ہارنے کے بعد بھی اقتدار کا خناس ان کے دماغوں سے نکل نہیں سکا۔ ستم یہ کہ وہ خود اپنی اولادوں سمیت غیر ملکی بنکروں میں تشریف فرما ہیں اور ان کی عقلی نابالغ اور لوٹ مار میں مکمل حصے دار باقیات چیخم دھاڑ میں مصروف ہے۔ قومی خزانے سے لوٹ مار کا بھاری پیسہ ہے جو سازشوں کے جال بُننے، کرائے کے نام نہاد کارندوں سے حکومت کے کیے کرائے پہ پانی پھیرنے اور قلم کے منھ سے زہر تھوکنے والوں کا بھاڑا ادا کرنے کے کام آ رہا ہے۔ انھوں نے کچھ وظیفہ خوار سیاسی نابالغوں کے ذریعے چالاکی یہ کی کہ جو وقت حساب دینے کا تھا، لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے اسی وقت میں حساب مانگنا شروع کر دیا۔ ہمارا اپنا یہ موقف ہے کہ موجودہ حکومت کا ٹھیک ٹھاک قسم کا احتساب ہونا چاہیے لیکن ایک ٹینیور مکمل کر لینے کے بعد۔ اس سے قبل سابقہ حکومتوں کا حساب پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ میری تو تمام لوگوں سے بھی یہی گزارش ہے کہ اب ہوش کے ناخن لیں، اور یاد رکھیں اب کسی گھر سے بھٹو نہیں نکلے گا، ایک تجربہ کار نے تو اُسے اپنے ہی گھر سے نکال دیا ہے۔ کل ضرور بھٹو زندہ تھا لیکن آنکھیں کھول کے دیکھو اب اس خاندان کے ایک ایک فرد کو نکرے لگا دیا گیا ہے۔ یہ بھی سوچیے کہ دوسرا وزیرِ اعظم اگر کھاتا تھا تو کتنا اور کس کس کے حصے کا کھاتا تھا اور لگاتا تھا تو کہاں لگاتا تھا؟یہ وطن پون صدی کا ہو گیا ہے، اس عمر میں لوگ پلاٹینم جوبلیاں مناتے ہیں، ہم اب تک پلاٹ اینم اور فراڈاینم جوبلی میں لگے ہیں۔ اب ہمیں جیالے پن، پٹوارزم اور یوتھیالوجی سے نکل کے ایک سچا پاکستانی بن جانا چاہیے۔ دُرِ نجف زیبی کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے ہے۔ وہ بھی پاکستان کی محبت سے سرشار ہیں، وطنِ عزیز کے وقار پہ آنچ آنے پر ان کا دل دُکھتا ہے۔ سب حکمران دیکھ چکیں۔ ابھی موجودہ حکومت سے مایوس نہیں ہوئیں۔ عمران خان سے وابستہ امیدوں کے حوالے سے ذرا ان کے یہ عزائم بھی دیکھیے : عمران اگر تم ہار گئے / تو یاد رکھو! /ہم سب کی موت یقینی ہے /حق سچ کی موت یقینی ہے /ہم لوگ جو کچھ خاموش سے ہیں /ہم لوگ جو اس دھرتی کے لیے / اک نیک تمنا رکھتے ہیں/ تتلی کے پروں سے رنگ لے کر/ پھولوں سے چرا کر کچھ خوشبو/اس دھرتی پہ پھیلانے کی/ خاموش تمنا رکھتے ہیں/ جب تم نے ہمارے دل کی کہی/ ہم جھوم اُٹھے/ لیکن جو مقابل ہیں تیرے/ اور جن سے تم نے ہر صورت/ اب جنگ کرنے کی ٹھانی ہے/وہ مکر و فریب کے پُتلے ہیں/ تم سیدھے سادھے انساں ہو/و ہ خون کی خوگر جونکیں ہیں/ جو پھر سے لہو کی پیاسی ہیں/ عمران اگر تم ہار گئے/ یہ پھر سے قوم کو لُوٹیں گے/یہ روشنی گروی رکھ دیں گے/ جیون میں اندھیرے بھر دیں گے/ عمران ذرا ہشیاری سے/ یہ چور، یہ جھوٹے، دس نمبری/ ناکام تمھیں کرنے کے لیے/ ہر حربہ کام میں لائیں گے/ اس ملک کو بیچ کے کھائیں گے/ اور کاروبار بڑھائیں گے/ عمران ذرا ہشیاری سے/ تم اپنی ٹیم تیار کرو/ کچھ حکمت سے، دلداری سے/ اس قوم کی نیّا پار کرو/ عمران اگر تم ہار گئے / تو یاد رکھو! /ہم سب کی موت یقینی ہے /حق سچ کی موت یقینی ہے