خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست کے بعد وزیراعظم نے نتائج تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم نے غلطیاں کیں اور نتیجہ بھگت لیا‘‘۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم سیکرٹریٹ کو خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی کی رپورٹ ایک موصول ہوئی ہے۔ جسے انہوں نے کے پی کے حکومت کو بھجوا کر جواب بھی طلب کر لیا ہے۔ وزیر اعظم نے تو غلطیوں کی بات کی ہے مگر رپورٹ میں صرف ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم پر روشنی ڈال کر ایک اور غلطی کی گئی ہے۔رپورٹ مرتب کرنے والے پارٹی سے مخلص ہوتے تو غلطی کا تعین صرف گورنرخیبر پختونخوا اور تحریک انصاف کے وزراء کے اپنے چہیتوں کو نوازنے کے لئے اہل امیدواروں کو نظرانداز کرنے تک ہی محدود نہ رکھتے بلکہ اس عبرت ناک شکست کی وجوہات تحریک انصاف کے عروج اور زوال کے سفر میں تلاش کرتے۔دیکھا جاتا کہ 2018ء میں پاکستانیوں نے کس امید پر تحریک انصاف کو ووٹ کیوں دیا اور 2021ء میں تحریک انصاف سے بے زاری کا اظہار کیوں کیا ہے؟یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستانیوں نے تحریک انصاف کو تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا تھا! وہ تبدیلی کیا تھی؟اقرباپروری کے بجائے میرٹ اور شفافیت کی تبدیلی، سرکاری خزانہ لوٹنے والوں کے احتساب کی تبدیلی،کشکول توڑ کر ملک کو خود انحصاری کی منزل پر ڈالنے کی تبدیلی، معاشی مساوات کے ذریعے خوشحالی لانے کی تبدیلی۔عوام کو عمران خان سے توقع تھی کہ وہ اقتدار میں آ کر نظام تبدیل کر دیں گے مگر ہوا کیا؟بدقسمتی سے تحریک انصاف کی’’ تبدیلی‘‘ صرف سرکاری افسروں کے تبادلوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ تحریک انصاف نے اپنے اقتدار کے پہلے 31ماہ کے دوران 5چیئرمین ایف بی آر، 6آئی جی پنجاب، 4سیکرٹری پنجاب، 4وفاقی سیکرٹری، 4وزراء داخلہ، 3وزرائے اطلاعات، 5سیکرٹری خزانہ، تبدیل کئے۔یہ تبادلے اگر نظام کی تبدیلی کے لئے ہوتے توآثار بھی نمودار ہو تے مگر بدقسمتی سے بیوروکریسی میں یہ تبدیلیاں، مقصد اور اہداف کے بجائے مصلحت کا شکار ہوتی گئیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیر اعظم جس شبر زیدی کو ٹیکس نظام کی درستگی کے لئے بڑے ارمانوں کے ساتھ لائے تھے ان کو ادائیگیوں پر شناختی کارڈ کی شرط لگانے کی پاداش میں تبدیل نہ کرتے۔جس آئی جی پولیس کو کامیاب اصلاحات کے ذریعے خیبر پختونخوا میں پولیس کلچر تبدیل کرنے کے بعد پنجاب میں لائے تھے۔چند ماہ بعد وہ بھی یوٹرن والی’’تبدیلی‘‘ پر قربان نہ کر دیے جاتے۔ تبدیلی کے لئے ایسے تبادلوں کا سفر آج تک جاری ہے اور عوام پیرزادہ قاسم کے اس سفر کے مصداق فریاد کرتے دکھائی دیتے ہیں: اپنی تلاش کا سفر ختم بھی کیجئے کبھی خواب میں چل رہے ہیں آپ، آپ بھی عجیب ہیں وزیر اعظم کو خواب میں چلتا دیکھ کر عوام ہی نہیں خواص بھی مایوس ہو چکے ہیں۔یہ مایوسی نہیں تو اور کیا ہے!کیا جو میڈیا 2014ء کے دھرنے میں عمران خان کو پاکستان کی واحد امید بتا رہا تھا وہ آج مسلم لیگ ن کے بیانیہ کا پرچار نہیںکر رہا ہے؟ کہ عمران خان 2018ء کے انتخابات میں جیت کر نہیں آئے بلکہ ان کو جتوا کر لایا گیا ۔ میڈیا کے دو چینلز کے پروگرام اور ان کے اخبارات کے کالم اس بات کا ثبوت ہیں۔یعنی عمران خان کے یوٹرن کو دیکھ کر میڈیا بھی یوٹرن لے کر رہا ہے۔ اس کی مثال ایک ٹی وی کے اینکر جو کہ ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کے قصے سنایا کرتے تھے وہ آج مسلم لیگ کے بیانیہ کو تقویت دینے کے لئے پروگرام کر رہے ہیں۔ اسی کے ایک تحقیقاتی رپورٹر جو پانامہ پیپرز میں شریف خاندان کی لوٹ مار ڈھونڈ ڈھونڈ کر لایا کرتے تھے انہوں نے خیبر پختونخوا کی شکست کی پانچ حقیقتیں بیان کی ہیں۔ چوتھی حقیقت کے الفاظ کچھ یوں ہیں ’’خیبرپختونخوا کی حکومت اور پی ٹی آئی کی قیادت اتنی نااہل اور نکمی ہے کہ اگر 2018 میں ’’مدد کرنے والی طاقتیں‘‘ ساتھ نہ ہوں تو یہ قانون اور ضابطے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے، سرکاری وسائل کے بھرپور استعمال کے باوجود، دھاندلی کے ذریعے بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ ۔پانچویں حقیقت میں انہوں نے لکھاہے کہ خیبر ضلع 2018ء میں پی ٹی آئی کی ’’جھولی میں ڈال دیا گیا‘‘ تھا۔ صرف ایک اخبار یا چینلز کی بات نہیںاور معروف اخبار میں پی ٹی آئی کے حامی نا سہی مگر ماضی کے حکمرانوں سے مایوس اور بے زار کالم نگار نے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی شکست پر اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’بڑا سوال البتہ ان فضول کے فنکاروں کی نالائقی کا نہیں بلکہ ’’ان عاملوں‘‘ کی کوتاہ بینی کا ہے ’’جو انہیں اقتدار میں لائے‘‘۔خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی شکست، عوام کا موڈ اور سیاسی دانشوروں کی بدلتی رائے اس بات کی عکاس ہے کہ عمران خان کی تبدیلی کا نعرہ فریب ثابت ہوا اس تاثر کو بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافے پر حکومتی وزراء کا تمسخر اڑانا مزید تقویت دے رہا ہے۔ جب حکومتی وزراء مہنگائی سے خودکشی کرتے غریبوں کو چینی، گھی استعمال نہ کرنے اور روٹی کم کھانے کا مشورہ دیں گے اور وزیر اعظم اس بات پر بضد ہوں گے کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے تو عوام کا انتخابات میں ردعمل اور خواص کا اپنی رائے تبدیل کرنا فطری عمل ہو گا۔ اب عمران خان نے خیبر پختونخوا میں شکست میں غلطیوں کو تسلیم ہی کر لیا ہے تو سرکاری رپورٹوں سے نکل کر خود احتسابی کے ذریعے غلطیوں کا تعین کریں ۔ ممکن ہے ان کو اس غلطی کا بھی احساس ہو جائے کہ عوام و خواص کی مایوسی اور بیزاری کی وجہ بننے والی غلطیوں میں سب سے بڑی غلطی ان کا اپنے گرد خوشامد کرنے والوں کو جمع کرناہے۔ جو حقائق کو ان تک پہنچنے نہیں دیتے۔معروف کالم نگار صفدر محمود نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا ’’خوشامد حکمرانوں کی بیدار مغزی کو گہری نیند سلا دیتی ہے وہ سب اچھا ہے عوام میرے پجاری ہیں کے جام نوش فرما کر جابرانہ فیصلے کرتے ہیں اور لذت اقتدار میں مست رہتے ہیں‘‘۔ یہ مضمون وزیراعظم کو خوشامدی حصار سے آزاد کر سکتا ہے۔ اگر عمران خان شکست کی وجہ بننے والی غلطیوں کو صرف سرکاری وزیروں مشیروں کی رپورٹوں میں ہی تلاش کریں گے تو ان کو خوشامدی حضرات کے دکھائے جانے والے خوابوں کی تعبیر ہی دکھائی دے گی جس کے بارے میں پیرزادہ قاسم نے ہی کہا تھا: تعبیر نظر آنے لگی خواب کی صورت اب خواب ہی دیکھو گے بشارت نہ ملے گی