آئن سٹائن نے ایک ہی تجربے کو بار بار دہرا کر مختلف نتائج کی تواقع رکھنے کو پاگل پن کہا ہے۔ زندہ قومیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں۔ ہر سال 16دسمبر کو قوم پاکستان کے دولخت ہونے پر فیض احمد فیض کا شکوہ دہراتی ہیں ۔ ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد حقیقت یہ ہے کہ اتنی مدارت کے بعد اگر مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام اجنبی رہے تو کچھ غلط فہمیاں اور کچھ غلطیاں ہو ں گی۔ غلطیاں عوام سے نا سہی مگر حکمرانوں سے سر زد ہوئیں ۔ دشمن نے ان کو کس طرح ہمارے ہی خلاف ہتھیار بنایا۔جاننا اس لئے ضروری ہے کہ مستقبل میںماضی کی غلطیوںسے بچا جا سکے۔اس کے لئے نئی نسل کے ساتھ حکمرانوں کو بھی ماضی میں جھانکنا ہو گا۔ سیاسی اور سماجی دانشور اس کی وجوہات جاننے کے لئے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد کے حالات پر دعوت فکر دیتے ہیں۔ 23مارچ 1940ء کی قرار داد پاکستان کے مسودے کی تیاری کے وقت حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے سرظفر اللہ خان کو امریکی دستور سے رہنمائی حاصل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ قرارداد پاکستان میں مسلمان اکثریت ریاستوں پر مشتمل آزاد مملکت کا مطالبہ کیا گیا۔ قائد اعظم ریاست ہائے متحدہ کی طرح ریاست ہائے پاکستان کے قیام کے متمنی تھے تو اس کی وجہ ہندوستان میں پنجاب، سندھ، سرحد، بنگال کے ساتھ حیدرآباد اورجونا گڑھ جیسی ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقے تھے۔ انگریز کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے پاکستان مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اور ایک ہزار میل کے بھارتی علاقے کا فاصلہ بھی حائل تھا۔ قائد اعظم نے اس تقسیم کی خلیج کو بھانپ کر ُپر کرنے کے لئے قومی زبان کے لئے اردو کے نفاذکا فیصلہ کیا۔ اردو کو اس لئے منتخب کیا کیونکہ یہ زبان پاکستان کے کسی بھی علاقے کی مادری زبان نہ تھی۔ قائد اعظم کا خیال تھا کہ ایک زبان پاکستان کی وحدت کی بنیاد بنے گی۔خدا قائد اعظم کو تھوڑی مہلت اور دے دیتا تو شاید قائد اعظم اس تصور کو عملی جامہ بھی پہنا دیتے۔ قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کو قیادت کے بحران نے آن گھیرا۔پاکستان کی سیاست جاگیردار اور وڈیروںکے ہاتھ میں چلی گئی اور ان کی ہوس اقتدار نے مشرقی پاکستان میں احساس محرومی کی خلیج کو مزید بڑھا دیا۔مغربی پاکستان کے جاگیرداروں کے دادا گیری کا واقعہ قدرت اللہ شہاب نے’’ شہاب نامہ‘‘ میں درج کیا ہے کہ کس طرح امریکہ سے ملنے والی امداد کموڈ اور واش بیسن کی تقسیم پر بنگالیوں پر کیلے کی گاچھ( جھنڈ) کی اوٹ میں بیٹھ کر رفع حاجت کی پھبتی اڑائی گئی۔مشرقی اور مغربی پاکستان میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے مشرقی پاکستان کے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی مگر 1950-55ء کے دوران مغربی پاکستان پر 1125کروڑ خرچ ہوئے جو کل اخراجات کا 63.3فیصد تھے اور مشرقی پاکستان میں 524کروڑ 24.5فیصد خرچ ہوئے۔ غلطی ایک بار نہیں ہوئی بلکہ وقت کے ساتھ دہرائی جاتی رہی ۔ 1960-65ء کے پانچ سالہ منصوبے میں مغربی پاکستان پر 3355 کروڑجو کل اخراجات کا 70فیصد تھا ،خرچ ہوا تو 1965-70ء ‘70.82فیصد ۔ اس طرح قیام پاکستان کے بعد 20سال میں جو کل اخراجات ہوئے ان میں مغربی پاکستان کا حصہ 71.16فیصد اور مغربی پاکستان کا 28.84فیصد تھا۔ جب کہ 1960 ء میں 70 فیصد برآمدات مشرقی پاکستان سے تھیں یہاں تک کہ 1970 میں بھی 60 % برآمدات مشرقی پاکستان سے تھیں۔ غیر منصفانہ تقسیم ایک دو سال ہو تو مجبور مانی جا سکتی ہے۔20 سال تک مسلسل غیر منصفانہ تقسیم کو استحصال کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ اس استحصال نے مشرقی پاکستان کے عوام کے احساس محرومی کو بغاوت میں بدل دیا۔ رہی سہی کسر بھارت نے پوری کر دی۔ بھارت اپنی سازشوں میںکامیاب نہ ہوتا اگر مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کو وسائل کے بجائے پیار اور بھائی چارہ ہی مل جاتا۔جسٹس محمد منیر نے اپنی کتاب ’’فرام جناح ٹو ضیائ‘‘ میں لکھا ہے کہ جنرل ایوب 1962ء میں ہی بنگالیوں سے جان چھڑوانا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے ایوب کے کہنے پر وفاقی وزیر قانون کی حیثیت سے بنگالی سیاستدانوں سے علیحدگی یا کنفیڈریشن کے لئے بات چیت کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ جسے بنگالیوں نے خارج ازامکان قرار دیا تھا۔اس کے علاوہ ہنری کسنجر کا یہ کہنا کہ جنرل یحییٰ مارچ 1972ء تک بنگلہ دیش کو آزادی دینے پر رضا مند تھے۔ان حالات کو بھارت نے پاکستان کو دولخت کرنے کے لئے کس طرح استعمال کیا اس کی تفصیل بریگیڈیئر(ر) آر پی سنگھ نے 24مئی 2021ء کو بنگلہ دیش کے ایک انگریزی اخبار کے لئے لکھے گئے اپنے مضمون میں بیان کر دی ہے۔کس طرح بنگال کے نوجوانوں کو بغاوت پر اکسانے کیلئے مکتی باہنی بنائی گئی۔ بنگالیوں کی عسکری تربیت کے لئے ایک کیمپ میں 500 ریکروٹ بھرتی کرنے ان کی تربیت کرنے پر ایک لاکھ پچپن ہزار روپے خرچ کئے گئے۔ اس طرح کے 25کیمپ تھے۔ بنگالی نوجوانوں کو کتنا معاوضہ دیا جاتا معاونت فراہم کرنے والوں کو کیا ملتا۔ آرپی سنگھ نے تمام راز افشا کر دیئے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف نفرت کو اس حد تک بڑھا دیا کہ بنگلہ دیش کے سیاستدان بھی بھارت کے ہمنوا ہوگئے۔ یہاں تک کہ شیخ مجیب الرحمن کے بیٹے اور بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کے بھائی شیخ کمال کو فرسٹ وار کورس میں ٹرینڈ کیا گیا۔آر پی سنگھ نے یہ بھی لکھا ہے کہ 12سے 17جولائی 1971 ء کو ہونے والی مکتی باہنی اور فوج کی کانفرنس کی صدارت بنگلہ دیش کے وزیراعظم تاج الدین نے کی تھی۔اس مضمون میں پاکستان کے لئے سبق ہے کہ کس طرح دشمن آپ کی کمزوریوں کو آپ کے خلاف ہتھیار بنا سکتا ہے۔ جہاں تک ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بات ہے تو یقیناً پاکستان کا درد رکھنے والوں نے کوشش ضرور کی ۔ سابق صدر زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ ہی نہیں لگایا بلکہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اپنے اختیارات پارلیمنٹ اور صوبوں کو دینے کے لئے آئین سازی بھی کی۔ یہ الگ بات ہے خود کو سب سے زیادہ پاکستان کا وفادار سمجھنے والی سیاسی اشرافیہ نے معاملہ کاغذوں سے آگے نہ بڑھنے دیا، جس کا نتیجہ گوادر میں جاری دھرنے، فاٹا کے ایم این ایز کی گرفتاریوں سندھ اسمبلی میں ہونے والی تقریروں کی صورت میں نکل رہا ہے۔ پاکستان کا ایک بازو کٹ چکا باقی جسد پر اپنوں اور دشمنوں کے لگائے زخموں سے خون رس رہا ہے اگر انصاف، مساوات کے پانی سے یہ دھبے صاف نہ کئے گئے تو خدا ناخواستہ قوم پھر فیض کی طرح پچھتائے گی۔ کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد