"تصویر ادھوری رہتی ہے" کہ عنوان سے گزشتہ دنوں امبانی فیملی پر ایک کالم لکھا جو اللہ کے کرم سے بے حد وائرل ہوا ۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے امبانی کی ٹریلین ڈالرز دولت کے کی گود میں چمچماتی زندگی کے گلیمر موجود اس کمی اور ادھورے پن کو دیکھا جسے دولت پورا نہیں کرسکی اور مسائل کے گرداب میں پھنسی اپنی زندگیوں میں موجود اللہ کی ان شمار نعمتوں کو محسوس کیا جسے ہل من مزید کی ہوس میں ہم نظر انداز کرتے ہیں۔بہرحال لفظوں کو قبولیت ملی اور کالم سوشل میڈیا پر سینکڑوں بار شیئر ہوا۔ شیئر کرنے والوں کو تحریر تو پسند آئی مگر شاید لکھنے والے کا نام پسند نہیں آیا بیشتر پوسٹوں میں میرے نام کو حذف کر کے شیئر کیاگیا۔ کچھ نے یہ افلاطونی دکھائی کی ڈھٹائی سے تحریر کے ساتھ اپنا نام لکھ کر اسے شیئر کر دیا اور خوب واہ واہ سمیٹی۔یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ آپ کسی اور کے گھر پر اپنے نام کی تختی لگا دیں۔ کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں کرسکتے کیونکہ وہ گھر آپ کی پراپرٹی نہیں ہے۔تحریر بھی اسی طرح لکھنے والے کی انٹلیکچول پراپرٹی ہے آپ اس پر کس طرح اپنا نام لکھ سکتے ہیں ۔مگر ہمارے سماج میں یہ چیز بالکل عام ہوتی جا رہی ہے۔یہاں تک کہ پڑھے لکھے لوگ بھی ایسی حرکت کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ڈاکٹر عفان سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں انہوں نے میرے کالم پر اسی عنوان کے ساتھ ویڈیو بنائی اور کالم ہی کا کنٹینٹ استعمال کیا لیکن اس میں لکھاری کا نام نہیں لیا۔ادارتی صفحوں پر چھپنے والے بھی ایسی وارداتوں میں ملوث ہیں دوسروں کی تحریریں کاٹ چھانٹ کا اپنی دانشوری کے جھوٹے محل تعمیر کرتے ہیںاور معزز کالم نگار کہلاتے ہیں۔جینوئن شاعر فیس بک پر اپنے تازہ کلام شیئر کرتے ہوئے ڈرتے ہیں تو شہرت کی ہوس میں مبتلا نقال ان کے خون جگر سے لکھے اشعار میں سے ایک آدھ لفظ کا رد و بدل کر اسے اپنے نام کے ساتھ شیئر کرتے ہیں اور واہ واہ سمیٹتے ہیں۔میرا مشاہدہ ہے کہ لوگ اسے غلط سمجھتے ہی نہیں ایک دلچسپ واقعہ سنیے اس واقعے کے راوی میرے بھائی ہیں۔محفل میں چند احباب تشریف رکھتے تھے کہ ایک صاحب نے کہا کہ میں کچھ اشعار آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے جیب سے ایک پرچی نکال لی اور فرحت عباس شاہ کی مشہور غزل تم نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد ،سنانا شروع کر دی اور آخری شعر میں شاعر کے تخلص کی جگہ اپنا نام لگا دیا۔کچھ لوگ جو شاعری سے نابلد تھے انہوں نے خوب واہ واہ کی مگر ہمارے بھائی صاحب چونکہ جانتے تھے انہوں نے نشان دہی کی کہ یہ تو فرحت عباس شاہ کی غزل ہے جو آپ نے اپنی بنا کے سنا دی ہے۔ جواباً بڑی ڈھٹائی سے اس نے کہا جی بالکل یہ ان کی غزل ہے لیکن شاید آپ نے نوٹس نہیں کیا کہ آخری شعر میں میںنے اپنا نام لگا دیا ہے یعنی صرف اپنا نام لگا دینے سے وہ تخلیق پوری کی پوری ان کے مطابق ان کی ہو گئی۔یہ وہی ذہنیت ہے جو ہمیں حکمرانوں میں بھی نظر آتی ہے جب وہ دوسروں کے کیے گئے پروجیکٹس پر اپنے نام کی تختیاں لگاتے ہیں۔یعنی کہ یہاں آوے کا آوا ہے بگڑا ہوا ہے۔زوال کے یہ کیفیت ایسے ہی نہیں ہوئی کہ پاکستان کے پی ایچ ڈیز کے مقالے عالمی سطح پر ریجیکٹ ہو جاتے ہیں کیونکہ اس میں سے بیشتر مواد نقل شدہ ہوتا ہے۔ نقالی میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہم بنیادی طور پر ہی نقل خور ہیں خالص سوچ کی انفرادیت کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھنے کی جرات یہاں بہت کم لوگوں میں ہے۔زوال تو یہ ہے کہ وہ ادارے جنہیں تخلیقی طور پر منفرد سوچ کے اظہار کا مرکز ہونا چاہیے تھا وہاں صرف نقالی کا راج ہے۔پاکستان کے نیوز چینلز کی صورتحال ملاحظہ ہو برسوں پہلے جب ایک چینل نے سیاسی ٹاک شوز میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو بلا کر انہیں آپس میں لڑوانے کا ٹرینڈ دیا تو اسی فارمولا کو بعد میں آنے والے تمام نیوز چینلز نے کامیابی کا فارمولا سمجھ کر اپنایا اور صورتحال یہ ہے کہ آپ کو اب ہر چینل پر اسی قسم کے لایعنی ٹاک شوز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ٹی وی چینلز پر آنے والی اینکر پرسنز کے حلیے، میک اپ، بالوں کا سٹائل، سب ایک جیسا ہے یہ انسان کم اور فوٹوکاپی مشین سے سے نکلی ہوئی ایک جیسی ڈمی فوٹو کاپیاں زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری دیکھ لیں اگر ایک طرز کا ڈرامہ عوام میں مقبول ہو جائے تو پھر ہر چینل پر اس ڈرامے کی بیسیوں فوٹو کاپیاں نظر آنے لگتی ہیںکیونکہ لکھاریوں کا اپنا معیار بھی وہی ہے۔یہ لکھاری ڈائجسٹ کی دنیا سے آنے والی خواتین ہیں جو چینل کے مالکان کے دیے ہوئے فارمولوں پر بغیر کسی چون چرا کے کہانیاں لکھ رہی ہیں۔ ماضی میں کیسے کیسے اوریجنل لکھنے والے موجود تھے کوئی ایک دوسرے کا اثر قبول نہیں کرتا تھا۔ ایک ہی دور میں حسینہ معین کے شہری زندگی کو دکھاتے ہوئے ڈرامے تھے اسی دور میں امجد اسلام امجد بھی لکھ رہے تھے منو بھائی بھی لکھ رہے تھے بانو قدسیہ اشفاق احمد بھی لکھ رہے تھے کیسے اوریجنل جینون لکھاری تھے۔مجال ہے کسی کی لکھے ہوئے ڈرامے پر کسی دوسرے کے کامیاب ڈرامے کی چھاپ بھی پڑی ہو ،سب کے اپنے کردار تھے اپنی سٹوری لائنز تھی اور زندگی کے حوالے سے اپنی فلاسفی تھی جو وہ اپنے ڈراموں کے ذریعے پیش کرتے تھے۔یہ لوگ جو سوشل میڈیا پر دوسروں کی تحریریں چراتے اور ان پر اپنے نام ٹھونس کر شیئر کرتے اور اس بدیانتی پہ واہ واہ سمٹتے ہیں دراصل ان کی تربیت ایک ایسے ہی معاشرے میں ہوئی ہے جہاں ہر طرف نقالی کا راج ہے۔ یہ سوچ اور یہ نفسیات ایک بیمار ،دھوکہ دہی پر آمادہ ،بددیانت معاشرے کی عکاس ہے۔یہ سب کچھ ہر روز ہو رہا ہے اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہو رہا ہے اس کو روکنے اور اس کا سد باب کرنے کا کوئی راستہ سمجھ نہیں آرہا۔انٹلیکچول پراپرٹی یعنی دانشورانہ املاک کے تحفظ کے لیے بھی آواز اٹھانی چاہیے اور دوسری چوریوں کی طرح دانشورانہ املاک پر ڈاکہ بھی قابل تعزیر ہونا چاہیے۔