وزیراعظم ہاؤس میںباقاعدگی سے ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت رپورٹس طلب کی جارہی ہیں۔مقصد واضح ہے کہ آئندہ الیکشن میں عوام کے سامنے قومی صحت کارڈ کے علاوہ میگاپراجیکٹس کی لسٹ بھی رکھی جائے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر متحرک وفاقی وزیر مواصلات مراد سعیدنے بھی قومی منصوبوں کی تکمیل کیلئے کاوشیں تیز کردیں ہیں۔جس کے باعث نیشنل ہائی اتھارٹی نے تین سال سے زیرالتوا ء قومی اہمیت کے ایک بڑے منصوبے سکھر،حیدرآباد موٹر وے کی بڈز کھولنے کا عمل شروع کیا مگرٹیکنیکل کوالیفیکشن کی سطح پر این ایچ اے کے ایک فیصلے نے اس منصوبے کو ایک مرتبہ پھر تنازع کا شکار کردیا۔ 306کلومیٹرحیدرآباد سکھر موٹر وے منصوبے کا ٹھیکہ پہلی بار چائنا اسٹیٹ کنسٹرکشن انجینئرنگ نے مئی2017ء میں حاصل کیا تھا،جس کی لاگت کا تخمینہ 175 ارب روپے تھا تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مبینہ بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے2019ء میں کنٹریکٹ منسوخ کر دیا تھا۔2020ء میں اس سڑک کے منصوبے کے لیے دوبارہ بولیاں طلب کی گئیں لیکن صرف ایک فرم نے اس میں حصہ لینے کی وجہ سے یہ عمل دوبارختم کردیا تھا۔موجودہ حکومت کی جانب سے پشاور تا کراچی موٹر وے نیٹ ورک کو منسلک کرنے کے اس حصے کی تعمیرکیلئے دوسری بار کوشش کی گئی۔پہلے کوشش کے بعد نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد سنگل ٹینڈر کی بجائے ری ٹینڈر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔اس مرتبہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے 191ارب روپے مالیت کے سکھر حیدرآباد موٹروے تعمیر منصوبے میںشریک دو کمپنیوں میں سے ایک کمپنی ٹیکنو کنسورشیم کو تکنیکی بنیادوں پر نااہل قراردیدیا گیا۔اب دوسری کمپنی کی بولی تسلیم کرنے سے قومی خزانے کو ایک اندازے کے مطابق 50 ارب روپے سے زائد نقصان پہنچنے کے آثار واضح دکھائی دینے لگے۔دستاویز کے مطابق ٹیکنو کنسورشیم کو حقائق کے بالکل برعکس ٹیکنیکل گراؤنڈ پر مسابقتی بڈنگ کے عمل سے باہر کیا گیاتھا، جس کے باعث بہت سے سوالات نے جنم لے لیا۔ خاکسار نے دستاویزکی روشنی میں یہ خبر بریک کہ این ایچ اے کے اس اقدام سے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس منصوبے کی لاگت میں پہلے ہی تاخیر کے باعث 16ارب روپے اضافہ ہوچکا تھا تو کیااب این ایچ اے کے اقدام سے عوام کو بھاری قیمت بھی چُکانا پڑے گی۔ اس معاملے پرخاکسار نے92نیوز پر پروگرام’’ دی لاسٹ آور‘‘میں تفصیلی بات کرتے ہوئے میرٹ اور شفافیت کے علمبردار وزیراعظم عمران خا ن اور وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کی توجہ مبذول کروائی۔ این ایچ اے کے حکام کو یہ قومی مفاد اور قومی خزانے کے تحفظ کی یہ کوشش سخت گراں گزری۔این ایچ اے کی جانب سے خاکسار کووارننگ کیساتھ لیگل نوٹس بھی جاری کردیا گیا ۔ وارننگ یہ تھی کہ فوری طور پر خبر کی تردیدکی جائے بصورت دیگر عدالت میں کیس کا سامناکرنے کی تیاری کریں۔ نیت صاف اور ارادے نیک ہوں تو کبھی کوئی لیگل نوٹس یا دھمکی آپ کا راستہ نہیں روک سکتی۔ ماضی میں بھی خاکسار کو کئی نوٹسز کا سامنا رہا،جس میں 20ارب روپے ادائیگی کا ایک لیگل نوٹس بھی جاری ہوا مگر دستاویز اور حقائق نے لیگل نوٹسز کے ذریعے راستہ روکنے کی کوششوں کوناکام بنادیا۔ این ایچ اے کی ہدایت پر جاری کردہ لیگل نوٹس کا جواب دینے کیساتھ میں نے اپنی صحافتی ذمہ داری پوری دیانتدار ی کیساتھ جاری رکھی ۔فالو اپ سٹوریز کیساتھ کالم اور پروگرام میں معاملہ اُجاگر کیا ۔ متاثرہ کمپنی نے پیپرا رولز کے مطابق متعلقہ کمیٹی کے سامنے نظرثانی کی درخواست کرتے ہوئے نااہلی کے خلاف تمام دستاویزی ثبوت پیش کئے۔نااہل قرار ٹیکنو کنسورشیم کی نظرثانی درخواست پر پیپرا رولز کے مطابق 8جنوری 2022ء تک فیصلہ جاری کرنا لازم تھا مگر یہ فیصلہ 19دن کی تاخیرسے بالاخر 27جنوری کو جاری کیا گیا۔ این ایچ اے نے تسلیم کرلیا کہ ٹیکنو کنسورشیم کی نااہلی کا فیصلہ غلط تھا۔ ٹیکنوکنسورشیم ہر لحاظ سے ٹیکنیکل کوالیفائی کرتی ہے۔این ایچ اے کے اس فیصلے نے 92نیوز کی کاوش پر مُہرثبت کردی۔ اب فنانشل بڈز کی اوپننگ کا سب سے بڑا مرحلہ درپیش تھا جس میں قومی خزانے کی بچت سے متعلق ہمارے دعوے کی درست یا غلط ہونے کا فیصلہ ہونا تھا۔ اسی بڈز کی بنیاد پر فیصلہ ہونا تھا کہ کونسی کمپنی کس قیمت پر سکھر حیدرآباد موٹروے تعمیر کرے گی۔این ایچ اے نے 4فروری کو فنانشل بڈز اوپن کیں تو تمام افسران حیرانی کے عالم میں دنگ کے دنگ رہ گئی ہے ۔ ۔ این ایچ اے نے ٹیکنو کنسورشیم جسے پہلی نااہل قرار دیے کر منصوبے سے باہر کرنے کی کوشش کی جاچکی تھی اسی ٹیکنو کنسورشیم کو این ایچ اے نے (Most Advantageous)کمپنی قراردیدیا جس کے باعث قومی خزانہ 50 نہیں بلکہ 178ارب روپے کے ناقابل تلافی نقصان سے بچ گیا۔قومی خزانے کی 178ارب روپے کی بچت ہوگئی؟اس سوال پر تمام کاریگر ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے ہکا بکا رہ گئے۔یہ بھی جان لیجئے کہ BOTکی بنیاد پر تعمیر ہونیوالے اس منصوبے پر وفاقی حکومت کو صرف 9ارب روپے خرچ کرنا پڑیں گے ۔ ویسے 178ارب روپے بچت کی قدرایڑھیاں رگڑ رگڑ کر 1ارب ڈالر قرض لینے والے ملک سے بہتر کون جان سکتا ہے۔یہ ناقابل یقین کام کسی غیر ملکی کمپنی نے نہیں بلکہ پاکستانی کمپنی ٹیکنو کی ٹیم نے سرانجام دے کر تاریخ رقم کردی ہے۔ میں گذشتہ چھ روز سے منتظر ہوں کہ پاکستانی کمپنی کے اس عظیم کارنامے اور قومی خزانے کی بچت پر وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کی جانب سے کوئی ٹویٹ یا اعلامیہ جاری کیا جائے مگر لگتا ہے کہ شاید میری یہ خواہش ادھوری رہے ۔ نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی