صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنی صاحبزادی آصفہ بھٹو کو خاتون اول کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس فیصلے کے بعد ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے ، جبکہ نئی بحث قومی امور کے بارے میں شروع ہونی چاہئے تھی ، یہ ٹھیک ہے کہ ماضی میں خاتون اول قرار دی گئی خواتین سابق صدور یا وزرائے اعظم کی اہلیہ رہی ہیں ، کیا خاتون اول اہلیہ کی جگہ بیٹی ہو سکتی ہے یا نہیں، قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ صدرمملکت خاتون اول کا درجہ اپنے گھر کی کسی بھی خاتون کو دینے میں بااختیار ہیں اور اس میں کوئی قانونی قدغن بھی نہیں ہے۔ہمارے ہاں آئین و قانون کی بجائے معاملات کو مراعات اور سہولتوں کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، سابق صدر عارف علوی کو بھی گھر مل گیا ہے جبکہ ملک کے کروڑوں افراد بے گھر ہیں اس کے کسی کو پروا نہیں۔صدر کو ملنے والی تمام مراعات سے فیملی کے تمام ممبران مکمل مستفید ہوتے ہیں ، بچے، اہلیہ اور دیگر ممبران کو سرکاری رہائش گاہ اور ہوائی جہاز استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے صدر کو ملنے والی مراعات بھی خاندان پر لاگو ہیں۔ سیاسی بحث میں اس بات کے بھی تذکرے ہو رہے ہیں کہ آصف زرداری اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنواتے بنواتے خود صدر بن بیٹھے اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف اپنے بڑے بھائی اور پارٹی سربراہ میاں نواز شریف کو وزیر اعظم کے پروٹوکول کے ساتھ پاکستان لائے اور بڑے اخبارات کے فرنٹ پیج پر وزیر اعظم نواز شریف کے اشتہارات بھی شائع کرائے، شاید یہی نیرنگیٔ سیاست ہے کہ میاں نواز شریف کی حسرتیں پوری نہ ہو سکیں۔ صدر مملکت آصف زرداری نے نئی وفاقی کابینہ سے حلف لیا ہے، 19 رکنی وفاقی کابینہ میں دو وزیر اویس لغاری اور ریاض پیرزادہ وسیب سے لیے گئے ہیں ، سندھ ،بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی نمائندگی بھی کم ہے ، پنجاب کابینہ کی طرح وفاقی کابینہ بھی پنجاب کابینہ نظر آتی ہے، چھوٹے صوبے پہلے ہی احساس محرومی کا شکار ہیں ، محرومی کے خاتمے کے لیے مرکز کو بڑا دل کرنا چاہئے ، اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری صدر آصف زرداری پر عائد ہوتی کہ ان کو مفاہمت کا بادشاہ کہاجاتا ہے وہ صوبوں کو اکٹھے لیکر چلیں اور سیاسی کشیدگی ختم کرائیں۔ چھوٹے صوبوں کے ساتھ ساتھ وسیب کا احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے، پچھلے دور صدارت میں آصف زرداری نے سرائیکی صوبے کے ساتھ سرائیکی بینک بنانے کا بھی وعدہ کیا تھا ، اب وعدوں کے ایفا کا وقت ہے ۔ وسیب کے ساتھ پورے ملک کا غریب طبقہ سخت مشکلات کا شکار ہے، پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے الیکشن کے موقع پر تین سو یونٹ تک فری بجلی دینے کے وعدے کئے تھے اس وعدے کو بھی پورا ہونا چاہئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں ادارے قائم کئے ، ان کے بعد کسی نے کوئی ادارہ نہ بنایا، اب پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو ملکر ملک و قوم کی بہتری کے لیے بڑے کام کرنے ہوں گے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ 44 سال بعد سپریم کورٹ نے اتفاق رائے سے قرار دیا ہے کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ٹرائل میں آئینی وقانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود ،جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 9رکنی لارجر بنچ میں ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے بارے میں صدارتی ریفرنس میں مختصر رائے جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ مسٹر بھٹو کے خلاف لاہو ر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کارروائی آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق اور آرٹیکل چار ، نواور دس اے کے مطابق نہیں تھی ۔سپریم کورٹ کی طرف سے یہ مان لینا بہت بڑی بات ہے کہ بھٹو کیس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے اس بنا ء پر عدالتی قتل والی بات درست ثابت ہوگئی۔ بھٹو کی پھانسی کو 44برس بیت گئے مگر اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں، بھٹو کی موت نے صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا ، وہ غریب ممالک خصوصاً عالم اسلام کے پسندیدہ لیڈر تھے ۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا پر عمل درآمد روکنے کیلئے کئی بین الاقوامی رہنمائوں نے جنرل ضیاء الحق پر دبائو ڈالا لیکن وہ اپنے فیصلے پر بضد رہے، یوں 4 اپریل 1979ء کو ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک وزیراعظم پھانسی کے پھندے سے جھول گیا۔ سپریم کورٹ کا موجودہ فیصلہ عدالتی تاریخ کا اہم فیصلہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر محترمہ بے نظیر بھٹو تک جس طرح بھٹو خاندان کو غیر طبعی موت کے ذریعے راستے سے ہٹایا گیا، دنیا کی سیاسی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے، بھٹو خاندان کے یکے بعد دیگرے قتل کے بعد جو اثرات پاکستان پر مرتب ہوئے اس سے پاکستانی قوم آج تک نہیںنکل سکی۔ ایک فیصلہ ضیاء الحق کی عدالتوںنے دیا اور ایک فیصلہ عوام کا ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سر براہ ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی ، اس مقدمے میں وعدہ معاف گواہ مسعود محمود نے بیان دیا تھا کہ بھٹو نے ا نہیں مسٹر قصوری کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا، لا ہور ہائی کورٹ نے 18 مارچ 1978ء کو اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے بھٹو کو سزائے موت اور 25 ہزار جرمانہ ادا کرنے یا چھ ماہ تک سخت قید کی سزا سنائی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ورثاء پھانسی کو سیاسی قتل کا نام دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے جنرل ضیاء کے حکم پر پھانسی کا فیصلہ سنایا تھا، وہ اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کیلئے یہ بات بھی کہتے ہیں کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق نے صدر کی ہدایات براہ راست وصول کی تھیں، سپریم کورٹ کے 4 ججوں نے پھانسی کے حق میں جبکہ 3 نے اس کے خلاف فیصلہ سنایاتھا ۔ ٭٭٭٭