استحصال کے معنی چھین چھپٹ ہے۔جب کوئی چھیناچھپٹی کرکے کسی فرد،افرادیاقوم وملت کی املاک پرقبضہ کرکے اسے غلام بناکربے دست و پا کرتاہے تواسے’’ استحصال‘‘ کہاجاتاہے ۔لمبے اور طویل مباحثوں اورنقدونظرمیں پڑے بغیرسمجھ لیجئے کہ یوم یکجہتی کشمیراوریوم استحصال کشمیر منانے، شاہراہ کشمیرکوشاہراہ سری نگر بنانے اوراسلام آباد میں سرینگرکی سنگ میل نصب کرنے یانقشہ پاکستان کے ساتھ ریاست کشمیرکوذراواضح طورپر دکھانے سے کشمیر پنجہ ہنود سے قطعاآزادنہیں ہو گا بلکہ کشمیرکی بھارت سے آزادی ’’ہندوکی مرمت‘‘ سے ہوگی اوریہ کل بھی نوشتہ دیوارتھا اورآج بھی ہے۔ البتہ جب چندمسلم ممالک کے سواباقی تمام مسلمان ممالک اوردنیابھرکے تمام ممالک، ارباب پاکستان سے یہ کہہ رہے ہوں کہ کشمیرکی گردان دہرانااورکشمیرکی رٹ لگاناچھوڑ دوتوایسے عالم میں علامتی طورپرہی سہی لیکن ان امورکی اپنی ایک اہمیت ضرورہے ۔شائداسی فلسفے کے تحت 5 اگست 2020ء بدھ کوعمران خان حکومت کی اپیل پر سرکاری سطح پر پاکستان کے طول وعرض میں ’’یوم استحصال کشمیر ‘‘منایاگیااوریہ دن 5اگست 2019 کے اس بھارتی اقدام کے خلاف منایا گیا جس کے تحت بھارت نے کشمیرسے متعلق اپنے آئین میں موجودشق 370 اور 35A کا خاتمہ کردیا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا5اگست یوم استحصال کشمیر منانے کے لئے موزون تھا؟اگراسلامیان کشمیر کی نظریاتی لیڈرشپ سے اس حوالے سے مشاورت کی جاتی تواس کامشورہ یہ ہوتا کہ 5اگست کے بجائے 27اکتوبرکویوم استحصال کشمیر منایا جائے کیونکہ5اگست 2019ء کوجب بھارت کی مودی سرکارنے دفعہ 370 اور 35A کے خاتمے کے ساتھ کشمیرکے بھارتی کے آئینی تعلق کوکالعدم قراردیا تواسلامیان کشمیرمودی کی اس حماقت پرخوش تھے اسی لئے انہوںنے بھارت کے اس اقدام کے خلاف کوئی احتجاج کیااورنہ ہی ان کی طرف سے اس پر کوئی شدیدردعمل سامنے آیا جس سے یہ باتآشکارہوتی ہے کہ اسلامیان کشمیر بھارت کے اس جبری تعلق سے جان چھڑاناچاہتے تھے ۔ کشمیرکافہمیدہ طبقہ جوتحریک آزادی کشمیرکے کثیرالجہت محاذوں پر صف باندھے کھڑاہے، وہ بھارتی آئین میں دفعہ 370 اور 35Aاوراس شق کو ایک استحصالی ہتھیار سمجھتے رہے ہیں اور دہلی کے حکمرانوں اور سرینگرمیں بیٹھے ہوئے کشمیرکے غدار ٹولے کے درمیان ایک ایسابرج قرار دے چکے تھے کہ جس کی توسط سے ہی بھارت کشمیرکے دو بھارت نواز خاندانوں شیخ عبداللہ اورمفتی سعید کو خریدتا رہا اور پھر ان سے کام لیتا رہا۔ بھارت کے اسی بھاری پتھر کو انہوں نے اپنے لئے سوناسمجھ کر طوق گردن بنا لیا تھا۔ بھارتی آئین کی اسی شق کی بنیادپرغداران کشمیرسری نگرمیںبھارتی ڈگڈگی بجاکرکشمیری مسلمانوں کا یہ کہتے ہوئے استحصال کرتے رہے کہ دیکھئے بھارت کشمیراورکشمیریوں کے ساتھ کتنا یکسو ہے کہ ریاست کشمیرکوخصوصی سٹیٹس دیاہواہے، جس کے طفیل کشمیریوں کی پہنچان باقی ہے اوریہ آئینی شق ان کے حقوق کی پاسبان ہے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ بھارتی حکمران بھارتی آئین کی اسی شق کے ذریعے کشمیرکے دوغدارخاندانوں کو ’’کولہوکابیل ‘‘بناچکاتھااوریکے بعددیگرے ان کے ذریعے ارض کشمیرپراپنے ناپاک پنجے مضبوطی سے گاڑ تے رہے اوراسی آئینی شق کی بنیادپر دہلی اورسری نگرمیں موجودکٹھ پتلیوں کے باہم انتظامی تعلق کواستواراورقائم ہوتارہا۔اب جبکہ گذشتہ سال مودی نے حماقت کرکے از خود اس پل کوڈھادیاتواس کے بعددہلی اورسری نگرمیں موجود اسکے پٹھوئووں کاربط ختم ہوگیااوران بھارتی مہروں کو نظربندہوناپڑایوں انہی ’’خداہی ملانہ وصال صنم ‘‘کے مصداق خجالت ، رسوائی، شرمندگی اور ذلت اٹھانا پڑی۔ 5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کااس بنیادی اور اہم پہلو سے دیکھا جائے اوراس کابنظر غائرجائزہ لیاجائے توبھارتی آئین میں آرٹیکل 370 اور 35A کا خاتمہ کشمیر اور اسلامیان کشمیرکے لئے نہایت ضروری تھااوراس کاکا فور ہونا کشمیر اور اسلامیان کشمیرکے مفاد میں تھا۔ البتہ بھارت کشمیراوراسلامیان کشمیر کا بڑے پیمانے پراستحصال کرتاچلاآیاہے بھارت نے کشمیر اورکشمیری مسلمانوں کا کس قدراستحصال کیا آئے اس پرایک اجمالی نظردوڑاتے ہیں ۔ بھارتی رام راج کے ہاتھوں کشمیراورکشمیریوں کے استحصال کی ایک دل دہلانے والی داستان یہ بھی ہے کہ بھارت مقبو ضہ کشمیرکی معدنیات اورقدرتی وسائل کی بے دریغ اندازمیںلوٹ ومارکی ،کشمیرکے گھنے جنگلات میں انتہائی قسم کی انواع واقسام کی جڑی بوٹیاں ہیں جسے 1947ء سے ہی بھارتی رام راج لوٹ رہاہے ۔دیودار،گائلواوراخروٹ کے قیمتی درختوں کی بے دریغ کٹائی اورپھراس بیش بہا لکڑی کو پورے بھارت میں فروخت کرکے کشمیری مسلمانوں کی اس قدرتی دولت کااستحصال کیا جا رہاہے۔ بھارتی رام راج کے ہاتھوں کشمیر اور کشمیریوں کے استحصال کی ایک کربناک داستان یہ ہے کہ کشمیرکے بے پناہ آبی وسائل سے کئی بجلی پروجیکٹس جن میں اوڑی اول، بگلیہاراول، سلال اور کرشن گنگا ڈیمز بھارت بناچکاہے اورکئی ایک بجلی پروجیکٹس پرکام شدومدسے جاری ہے جن سے ہزاروں میگاواٹ بجلی کشیدکی جارہی ہے جس سے دہلی اورشمالی بھارت کی ریاستوں کوروشن ہیں مگر سرینگر اورریاست کشمیرکے سب 20 اضلاع اندھیروں میں ڈوب رہے ہیں ۔ بھارتی رام راج کے ہاتھوں کشمیراورکشمیریوں کے استحصال کی ایک خوفناک داستان الم یہ بھی ہے کہ 5اگست 2019ء سے ارض کشمیرپرلگاتار کئی ایسے کالے قوانین لاگو کئے جارہے ہیںجن کے بدولت آنے والے ماہ وسال میںخطہ کشمیر کا مسلم کردار مکمل طورپرختم ہوجائے گا۔ مقبوضہ ریاست جموںوکشمیرپرڈومیسائل قوانین نافذکرکے لاکھوں بھارتی شہریوں جن میں فوجی اہلکاراور بنگلہ دیش سے بھاگ کرآئے ہوئے ہندوجنہیںشرنارتھی کے نام سے پکاراجاتاہے، نیپالی گورکھا، والمیکی کہلانے والے پناہ گزینوں، کشمیر میںپندرہ سال تک ملازمت کرنے والے بھارتی فوجی اہلکاراوربھارتی ریاستوں سے آئے ہوئے سویلین ملازمین، کشمیر میں بھارتی ریاستوں کے وہ طلباء جنہوں نے انٹر تک کشمیرمیں تعلیم پائی ہوان سب کیٹیگریزکو کشمیرکی شہریت ’’ڈومسائل ‘‘اجراکی جارہی ہے۔اس کالے قانون کے سیاق وسباق کوسامنے رکھتے ہوئے اندازہ لگالیںکہ کس طرح دسیوں لاکھ غیرریاستی ہندئووں،غیرمسلموں بھارتی باشندگان کوکشمیر کی شہریت کاسرٹیفیکٹ دینے جانے کے شرمناک منصوبہ پرعمل جاری ہے اور کشمیر کو برصغیر کا فلسطین بنایاجارہاہے ۔