نئی دہلی (این این آئی)بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی سرحد پر ملک کی کئی ریاستوں سے آنے والے کسانوں نے پانچویں روز بھی احتجاج اور دھرنا جاری رکھا، کسانوں نے ستمبر میں مرکزی حکومت کے ذریعے متعارف کر ائے جانے والے زرعی قانون کی مخالفت میں ’’دہلی چلو ‘‘ نعرے کے ساتھ دارالحکومت کا رْخ کرلیا، مختلف مقامات پر ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین موجود ہیں، کسان رہنماؤں نے حکومت سے بات کرنے سے بھی انکار کردیا، پنجاب اور ہریانہ ، اسی طرح اتر پردیش اور راجستھان سے کسانوں کی بڑی تعداد پیر کو اپنے احتجاج کے پانچویں روز دارالحکومت نئی دہلی کے سرحدی مقامات اور شمالی دہلی کے بریری گراؤنڈ میں دھرنا دئیے بیٹھ گئی ہے ۔ کسان رہنماؤں کا کہنا ہے آئندہ کئی روز کا راشن ساتھ لائے ہیں اور اس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک مطالبات پورے نہیں ہو جاتے ، حکومت نے انہیں نئی دہلی داخلے سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے ، حکومت کے مطابق زراعت کا نیا قانون کسانوں کی بھلائی کے لیے بنایا گیا ہے ، سرحد پر روکے جانے کی وجہ سے کسانوں اور پولیس میں مختلف جگہ تصادم بھی ہوئے ، کسانوں کے خلاف ہریانہ دہلی سرحد پر واٹر کینن اور آنسو گیس کے گولے استعمال کیے گئے ، کانگریس رہنما راہول گاندھی نے متعدد ٹویٹس کے ذریعہ کہا احتجاج کسانوں کا حق ہے ، کانگریس بھی اس قانون کی پارلیمان سے لے کر سڑکوں تک مخالفت کر رہی ہے ۔مطالبات نہ ماننے پر کسان لیڈروں نے دارالحکومت دہلی کے اہم ہائی ویز جام کرکے آمد ورفت پوری طرح سے بند کرنے کی دھمکی دے دی، کسان لیڈروں نے انتباہ کیا کہ ان کے تمام مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو وہ دہلی کے اہم ہائی ویز جام کرکے آمد ورفت پوری طرح سے بند کردیں گے ۔ انھیں دہلی کے مرکزی علاقے جنتر منتر پر احتجاج کرنے کی اجازت دی جائے ، کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کافی راشن ہے اور وہ چار مہینے تک سڑک پر بیٹھ سکتے ہیں۔کانگریس پارٹی کے رہنما پریانکا گاندھی نے کہا لیکن کسانوں کیلئے گڑھے کھود رہی ہے ، انہیں روکنے کیلئے سڑکوں پر گڑھے کھود ے جارہے ۔ مودی سرکار نے کسانوں کو آج مذاکرات کیلئے بلا لیا، مرکزی وزیر زراعت نریندر تومر نے سردی اور کورونا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا مذاکرات کیلئے کوئی شرط نہیں رکھی گئی۔