امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیراعظم شہبازشریف کو خط ارسال کیا ہے، جس میں شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر نیک تمنائوں کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں کسی بھی پاکستانی سربراہ مملکت سے امریکی صدر کایہ پہلا باضابطہ رابطہ ہے ،وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق امریکی صدر نے خط میں کہا کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان شراکت داری دنیا اور ہمارے عوام کی سلامتی یقینی بنانے میں نہایت اہم ہے ، دنیا اور خطے کو درپیش وقت کے اہم ترین چیلنجز کا سامنا کرنے میں امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ پاک امریکہ تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ،پاکستان نے وسیع تر قومی مفا دکے تحت ہمہ وقت امریکی پالیسیوں کی حمایت کی ہے ،یہاں تک کہ امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کیا گیا تو پاکستا ن نے امریکہ کو ہر طرح کا تعاون فراہم کیا ۔ جو بائیڈن نے جب اقتدار سنبھالا تھا تب انھوں نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ رابطہ نہیں کیا تھا ،جس کی بنیاد پردونوں ملکوں کے درمیان تعلقات جمود کا شکار ہو گئے تھے ۔لہذا اس بار امریکہ صدر کاپاکستانی وزیر اعظم کے نام خط خوش آئند ہے ۔اس وقت رابطہ نہ کر نے سے کئی قسم کے شبہات قائم ہوئے تھے کیونکہ اس کے کچھ ہی مہینوں کے بعد عمران خان کی حکومت مشکلات کا شکا رہو گئی تھی اور پھرعمران کی حکومت کا خاتمہ ہوا،لیکن عمران خان خاتمے کے ساتھ ہی عوامی سطح پر امریکہ کے بارے دو رائے پائی جاتی ہیں ،پی ٹی آئی کا سپورٹر یہ کہتا ہے کہ امریکہ نے عمران خاںکی حکومت ختم کروانے میں کردار ادا کیا ،جس کا امریکہ نے بھی متعدد بار انکار کیا ،جب کہ پی ڈی ایم کے حمایتی یہ کہتے ہیں کہ عمران خاںکی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے ۔گو اس کے بعد امریکہ کے بارے میں عوامی سطح پر غصے کا اظہار پایا جاتا ہے لیکن امریکہ صدر کے خط نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے ،جس میںوزیر اعظم میاں شہباز شریف کو مستقبل میں ساتھ چلنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے ۔سیاسی و سفارتی حلقے اس رابطے کو دونوں ملکوں کے لیے مستقبل کے لیے خوش آئند قرار دیتے ہیں ۔پی ڈیم ایم کی سابق حکومت کے ساتھ بھی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے اچھے تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ۔ ڈونلڈ بلوم نے پاک امریکہ تعلقات کو سلامتی کی بنیاد پر قائم شراکت داری سے بدلتے ہوئے معیشت کی بنیاد پر استوار وسیع شراکت داری بنانے کی کوشش کی تھی۔ وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میںپی ڈی ایم کی حکومت نے امریکہ کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ترتیب دیا تھا کیونکہ وزیراعظم شہباز شریف اور سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ دونوں نے امریکہ کے ہمراہ تعلقات بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا ۔پاکستان کے سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے امریکی وزیر خارجہ بلنکن سے ملاقات کے لیے اہم دورے کیے، جس کے نتیجے میں پاکستان اور امریکہ کے مابین مختلف سرگرمیاں منعقد ہوئی تھیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے77ویں اجلاس کے موقع پر امریکہ اور پاکستان کے نمائندوں کے مابین چھ ملاقاتیں ہوئی تھیں جن میں افغانستان پر امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ اور پاکستان کے سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو کے درمیان جبکہ امریکی خصوصی صدارتی سفیر برائے ماحولیات جان کیری اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کے مابین ملاقاتیں شامل تھیں ۔گو پی ڈی ایم کی حکومت کے پاس وقت کم تھا جس بنا پر مزید کچھ نہ ہو سکا لیکن اب جہاں پر بات رکی تھی وہی سے شروع کی جائے تو آگے بڑھنے میں تیزی آئیگی ۔ اس وقت پاکستان کے معاشی حالات انتہائی گھمبیر ہیں ،آئی ایم ایف سے سابق قرض کی قسط اور مستقبل میں نئے معاہدے کے لیے امریکہ کی مدد لینی چاہیے ۔اس کے علاوہ امریکہ کو سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے ۔2021ء کے دوران پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری میں گزشتہ برس کے مقابلے میں50فیصد اضافہ ہواتھا، جس کے نتیجے میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ امریکی کمپنیوں نے بھی سرمایہ کار ی کے لیے تیار کیا جائے ۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت امریکی کمپنیاں اور ان سے ملحقہ مقامی ادارے پاکستان میں سب سے زیادہ ملازمین کے حامل اداروں میں شامل ہیں ،اس لیے امریکہ میں موجود پاکستان کمیونٹی کو بھی متحرک کیا جائے ،سفارتی لابنگ کر کے امریکہ سے معاشی فائدہ لیا جائے ۔بیشتر ماہرین اتار چڑھاؤ کے شکار پاکستان امریکہ تعلقات کو نہ صرف خطے بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی اہم قرار دیتے ہیں۔ لیکن ماہرین اس وقت دونوں ممالک کے ایک دوسرے پر انحصار میں کمی کی وجہ سے مستقبل قریب میں ان کے دو طرفہ تعلقات میں گرم جوشی کے امکان کورد نہیں کرتے لیکن امریکہ کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط تر بنانا اس کی ایشیاء کے بارے موجود پالیسی میں بڑی ہی اہمیت حاصل ہے ۔لہذا پاکستان کو بھی امریکہ صدر کے حالیہ رابطے کو لیکر تیزی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں پیدا ہونے والی غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہیے۔ماضی بھول کر آگے بڑھنا دونوں ملکوں کے مفاد ہے ،پاکستان کی تو ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے اب امریکہ بھی آگے بڑھے ،اگر امریکہ ابھی بھی آگے نہیں بڑھتا تو پھر پاکستان کے پاس روس اور چین کے ساتھ ملکر اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ۔