پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل ہو گئے ہیں۔معروف صحافی عمران ریاض چار مہینے کے بعد گھر پہنچ گئے ہیں۔ لیکن ان سب خبروں سے بڑی خبر پاکستانی سیاست میں یہ ہے کہ نواز شریف پاکستان آرہے ہیں یا نہیں۔نواز شریف کی آمد کے پاکستانی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے۔ کیا واقعی نواز شریف پاکستان آرہے ہیں۔ نواز شریف کی آمد کے بعد پاکستان مسلم لیگ آنے والے الیکشن میں کیا پرفارمنس دکھا سکتی ہے۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں اور وہ کچھ عرصے کے لیے علاج کی غرض سے ملک سے باہر گئے تھے لیکن ان کا قیام کافی طویل ہو گیا ہے۔اب اگر نواز شریف پاکستان آتے ہیں تو سب سے پہلے تو انہیں اپنی باقی سزا پورا کرنا ہوگی۔ نواز شریف اپنی آمد کے بعد جاتی عمرہ جاتے ہیں یا کورٹ لکھپت جیل جاتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن اکتوبر کے مہینے میں جب نواز شریف آنا ہے اس سے پہلے بہت کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ان کی سزا ختم ہو جائے کیونکہ پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد قاضی فائزعیسی اب پاکستان کے نئے چیف جسٹس ہیں اور اس وقت نواز شریف کے لیے حالات وہ نہیں ہیں جوثاقب نثار اور عمر عطا بندیال کی موجودگی میں تھے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت نواز شریف اس وقت پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں اور عوام کا ایک بڑا طبقہ انہیں پاکستان کا نجات دہندہ سمجھتا ہے۔عوام کا ایک طبقہ یہ خیال کرتا ہے کہ نواز شریف وہ واحد سیاستدان ہیں جو اپنی بات منوا سکتے ہیں چاہے اس سلسلہ میں انہیں کسی کو گھر بھیجنا پڑے یا خود ملک سے باہر جانا پڑے۔ نواز شریف کا امیج جو ہے وہ ایک مزاحمت کرنے والے سیاست دان کا ہے جس نے کئی بارمزاحمت کی ہے۔ اس وقت پاکستان معاشی لحاظ سے بڑے خطرات میں ہے اور اب سوائے اس بات کے کہ کوئی بہت بڑی انویسٹمنٹ باہر سے آئے پاکستان کا ان حالات سے نکلنا مشکل نظر اتا ہے۔نواز شریف کے تعلقات سعودی حکومت کے ساتھ بہت اچھے ہیں اور وہ کافی عرصہ وہاں پہ شاہی مہمان کی حیثیت سے بھی رہے ہیں۔اب بھی کافی لوگ یہ باور کرتے ہیں کہ نواز شریف کے آنے کے بعد سعودیہ پاکستان میں کوئی بڑی انویسٹمنٹ کر سکتا ہے اور ابھی پچھلے دنوں پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ سعودی عرب پاکستان میں 25ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ آنے والے پانچ سالوں میں سعودی عرب پاکستان میں معدنیات، زراعت اور ائی ٹی سیکٹر میں انویسٹمنٹ کر سکتا ہے اور یہ تینوں شعبے ایسے ہیں جہاں پہ انویسٹمنٹ کرنے کے مواقع بھی موجود ہیں اور یہاں سے پاکستان کو زر مبادلہ کی بڑی مقدار حاصل ہو سکتی ہے مائننگ میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں چھ کھرب ڈالر کی معدنیات ہیں تو اب ریکوڈک پہ بھی کام شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کے پاس کافی بڑا رقبہ ہے تو اس وقت پاکستان میں نہ تو جدید مشینری ہے اور نہ ہی دوسرا انفراسٹرکچر ہے۔حالانکہ جتنا بڑا رقبہ ہے یہاں پہ کارپوریٹ فارمنگ کی شکل میں بہت زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے اور خاص طور پہ ڈیری کے سیکٹر میں بھی بڑے مواقع ہیں کہ یہاں پہ اگر انویسٹمنٹ کی جائے تو پاکستان آنے والے سالوں میں دودھ اور اس کی مصنوعات کے سلسلے میں خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ دوسرے ملکوں کو بھی بھیج سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے پاس نوجوانوں کی شکل میں ایک بڑا اثاثہ موجود ہے اگر ہم ان نوجوانوں کو آئی ٹی کے میدان میں ٹریننگ دے دیں تو پاکستان کافی زیادہ زر مبادلہ کما سکتا ہے۔ انڈیا کی اس وقت آئی ٹی کی ایکسپورٹ 170ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور پاکستان کی ائی ٹی کی ایکسپورٹ اس وقت پانچ ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔حالانکہ اگر آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کی ایکسپورٹ 30سے 40ارب ڈالر کے قریب ہونی چاہیے ۔آئی ٹی کے سیکٹر میں تو اگر ہم اپنے نوجوانوں کو ٹرینڈ کرتے ہیں تو ہم آنے والے چار پانچ سالوں میں کافی زیادہ زر مبادلہ کما سکتے ہیں تو ان عوامل کی بنا پر بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ جب نواز شریف آئیں گے تو مسلم لیگ کا گراف جو ان دنوں کافی نیچے ہے وہ کافی اوپر جا سکتا ہے۔نواز شریف ایک مقبول لیڈر ہیں اور وہ پاکستان مسلم لیگ کو آنے والے الیکشن میں ایک اچھے مقام پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف مریم نواز کی موجودگی کی شکل میں کافی لوگ انہیں پاکستان کی مستقبل کی قیادت مانتے ہیں تو آنے والے وقت میں جب نواز شریف اور مریم نواز مل کے مسلم لیگ کی الیکشن کمپین کریں گے تو پاکستان مسلم لیگ کے لیے یہ کافی آسان ہوگا کہ وہ پنجاب اور صوبہ سرحد میں اپنی کوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کر سکے۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کافی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اس وقت بھی ملک میں سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں۔ لیکن آنے والی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو بہت زیادہ مضبوط امیدوار میسر نہیں ہوں گے کیونکہ بہت سے لوگ پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑ چکے ہیں۔ چند مہینے پہلے تک تو یہ نظر آرہا تھا کہ بلاول بھٹو اس وقت وزارت عظمیٰ کے سب سے مضبوط امیدوار ہیں لیکن نواز شریف کی واپسی کی خبر کے ساتھ ہی بلاول بھٹو بہت پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ اس وقت آرمی چیف نے جو کچھ اقدامات کیے ہیں ان کے اثرات بھی بڑے اچھے نظر آرہے ہیں۔ ڈالر کی قیمت 300سے کم ہوئی ہے اور اس طرح چینی کی قیمت بھی 190سے کم ہوگی 160روپے کے قریب آچکی ہے تو اب عوام میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ آ نے والے دنوں میں بجلی چوری کی روک تھام ہو جائے گی اور پاکستان میں ڈالر کی قیمت بھی ڈھائی سو کے قریب آسکتی ہے اور جب ڈالر سستا ہوگا تو پیٹرول کی قیمت بھی خود بخود نیچے آ جائے گی۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ نواز شریف کے استقبال کے لیے اپنی تیاریاں کر رہی ہے امید کی جا رہی ہے کہ کافی بڑی تعداد میں لوگ نواز شریف کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یا نواز شریف کی آمداتنا اہم واقعہ ہو سکتی ہے جس طرح کے بے نظیر 1986اور 2007میں بیرون ملک سے آئی تھیں۔