آرمی چیف کے حوالے سے دائر درخواست پر سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد تین صفحات پر مشتمل تحریری آرڈر بھی جاری کردیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ مختصر حکم نامے میں کہا گیا ہے جنرل قمر جاوید باجوہ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت کو ہمارے روبرو چیلنج کیا گیا تھا، اس سلسلے میں پچھلے تین دن کے دوران سماعت میں وفاقی حکومت ایک کے بعد دوسرا موقف دوبارہ تعیناتی، ریٹائرمنٹ کی مدت یا مدت میں توسیع بارے پیش کرتی رہیں جس کے لئے آرٹیکل 243(4)(b) پر انحصار کیا اور آرمی ریگولیشن رولز 1998 کی ریگولیشن 255 کا بھی حوالہ دیا تاہم حتمی طور پر آج وفاقی حکومت نے اٹارنی جنرل پاکستان کے ذریعے صدر کی جانب سے وزیراعظم کی ایڈوائس پر بھجوائی گئی منظور شدہ سمری نوٹیفیکیشن کے ساتھ پیش کی، یہ نوٹیفیکیشن 28 نومبر کو جاری کیا گیا ہے ، جس میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو آئین کے آرٹیکل 243(4)(b) آئین پاکستان کی رو سے 28 نومبر 2019 سے چیف آف آرمی سٹاف تعینات کیا گیا ہے ۔ ہم نے آرٹیکل 243(4)(b) پاکستان آرمی ایکٹ 1992ئ، پاکستان آرمی ایکٹ رولز 1954 اور آرمی ریگولیشنز 1998 کا جائزہ لیا اور اٹارنی جنرل پاکستان نے جو ہمیں معاونت فراہم کی تو ہمیں چیف آف آرمی سٹاف کی مدت سے متعلق کوئی پروویژن نہ مل سکی، ایک جنرل یا آرمی چیف کو دوبارہ ان کی مدت ختم ہونے پر تقرر یا اس میں توسیعی دی جا سکتی ہے یا اس کی ریٹائرمنٹ کو محدود یا آئین و قانون کے تحت معطل کیا جا سکتا ہے تاہم اٹارنی جنرل کا موقف ہے کہ ایسا کنوشن کے تحت ہوتا ہے اگر کنونشن کے تحت تو پھر اس کنونشن کو قانون کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا۔ اٹارنی جنرل پاکستان نے پاکستان آرمی اور دیگر قوانین سے متعلق ہمارے سوالات کے تفصیلی جواب پیش کئے ۔فیصلہ میں کہا گیا ہے آرٹیکل 243 واضح طور پر وفاقی حکومت کو یہ مینڈیٹ دیتا ہے کہ وہ مسلح افواج کا کنٹرول اینڈ کمانڈ سنبھال سکیں اور اس سلسلے میں صدر پاکستان کو اختیارات دیے گئے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ صدر قانون کے مطابق ملٹری معاملات کا جائزہ لے سکتے ہیں اور یہ صدر ہی ہیں جو وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر کرتے ہیں۔ آرٹیکل 243 واضح طور پر کہتا ہے کہ صدر قانون کے مطابق ملٹری کو برقرار رکھ سکتے ہیں تاہم جو درج بالا قوانین بتائے گئے ہیں وہ چیف آف آرمی سٹاف یا جنرل کی دوبارہ تقرری، ریٹائرمنٹ اور مدت کا تعین نہیں کرتے ۔فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل پاکستان نے عدالت کو واضح طور پر یقین دہانی کرائی کہ بیان حلفی حلف دیا ہے کہ وفاقی حکومت چھ ماہ کی مدت کے اندر اندر ضروری قانون سازی کرے گی تاکہ اس ضمن میں مناسب قانون بنایا جاسکے ۔ چیف آف آرمی سٹاف کمانڈ، ڈسپلن، ٹریننگ، ایڈمنسٹریشن، آرگنائزیشن اور فوج کو جنگ کے لیے تیار کرنے بارے ایک ذمہ دار افسر ہیں اور جنرل ہیڈکوارٹرز کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں، ہم نے عدالتی اختیار استعمال کرتے ہوئے یہ مناسب سمجھا ہے چیف آف آرمی سٹاف کی سروس اس کی ٹرم اینڈ کنڈیشن کو واضح کرنے کے لیے معاملہ پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت پر چھوڑ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل 243 کے سکوپ کے بارے میں معاملہ واضح کیا جائے گا، اس لیے جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تقرری کو مذکورہ قانون سازی سے مشروط کر رہے ہیں، یہ تقرری آج سے چھ ماہ تک کے عرصے کے لیے ہو گی۔ جیسے ہی نئی قانون سازی جو مدت اور دیگر حوالوں سے سروس کی ٹرم اینڈ کنڈیشن کو پورا کر لے گی تو اس کا جائزہ لیا جائے گا، موجودہ درخواست کو درج بالا شرائط کی بنیاد پر نمٹایا جاتا ہے ۔