زمیں بیدار ہوتی جا رہی ہے ثمر آثار ہوتی جا رہی ہے طبیعت پر نہیں ہے دسترس کچھ یہ خود مختار ہوتی جا رہی ہے ایک عجیب صورت حال ہے محبت کی طلب مانگے ہے رستہ انا دیوار ہوتی جا رہی ہے۔اگرچہ پھول جیسی زندگی تھی مگر اب خار ہوتی جا رہی ہے۔ مسئلہ تو سارا اکڑ کا ہے کہ اس میں کوئی ٹوٹ سکتا ہے۔ لچک بڑی دیر بعد آتی ہے۔استاد پرواز نے کہا تھا خطائوں کی چھبن فوراً کہاں محسوس ہوتی ہے ندامت کی طرف آتا ہے دل مگر آہستہ آہستہ۔مگر یہاں ایسی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی۔ سب کا اپنا اپنا سچ ہے اور جھوٹ سب کا عیاں ہے۔ وزیر اعظم صاحب فرماتے ہیں کہ کسی کو اسلام آباد میں گھسنے نہیں دیں گے ظاہر ہے اتنے کنٹینرز کے حصار میں شہر ہے۔ویسے بھی آہن سے تو حکمرانوں کا تعلق بہت پرانا ہے۔ اقتدار کے حصول میں حصہ دار دودھ پینے والے مجنوں ہوتے ہیں اور یہ آپ دیکھ چکے ہیں جب پنجاب کی قیادت خود ہی گھر میں قید ہو گئی اور خان صاحب کو واپس کے پی کے جانا پڑا۔ آپ ان کے بیانات ہی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس کی وابستگی کس کے ساتھ ہے ابھی جب فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا ہے تو پرویز الٰہی نے فرمایا ہے کہ یہ ساری کوششیںجنرل جاوید باجوہ کی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے رہنما اس کامیابی کو عمران خاں کے ساتھ جوڑ رہے ہیں اگر ان میں باہم اتفاق ہوتا تو پنجاب اسمبلی ٹوٹ سکتی تھی اور کے پی کے تو ہے ہی ان کی۔مگر ایسا ممکن نہیں۔پی ٹی آئی کے 700سے زیادہ لوگوں پر مقدمات درج ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں اتنے ٹرینڈ بھی نہیں وہ یہ دبائو برداشت کیسے کر سکیں گے ان کا حال بھی ن لیگ سے زیادہ اچھا نہیں۔ اب تازہ ترین اشارات سمجھنے والے ہیں کہ بلاول فرما رہے ہیں کہ جمہوریت‘ پارلیمان کا دفاع مل کر کریں گے اور مزید یہ کہ آئندہ کسی بھی وزیر اعظم کا احتساب عدلیہ یا گیٹ نمبر 4کی بجائے جمہوری انداز میں ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ اس پر حیرت کا اظہار کریں لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے بات یہ جمہوری ہے ویسے بھی یہ بات کلیدی ہے کہ تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھائی چاہئیں گویا آئین اور قانون کی بالادستی ہو۔ اب اس کے مقابلے میں ہم عمران خاں کا بیان دیکھتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے کہ ایک ایسے شخص کو کہ جس کے پاس مقبولیت اور شہرت ہے وہ یہ کہ بلاول غیر سنجیدہ ہیں انہیں دو تہائی اکثریت نہ ملی تو وہ حکومت نہیں لیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اکثریت کس نے دینی ہیں؟ اس سے پیشتر بھی وہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں کمزور حکومت قبول نہیں اس بیان میں معصومیت ہے یا پیغام ۔ اس سے پیشتر بھی امپائر کی انگلی کی بات عام ہوتی۔ یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ نواز شریف خاندان عقلمند نہیں کمال ہے پینتیس سال سے وہ حکومت میں ہیں آپ کے دورکو نکال کر اور انہوں نے آپ کو بھی نکال دیا پھر اگر پوچھنے کی جسارت کروں تو آپ کے پاس نیب بھی نہیں تھی اور آپ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے تھے تو آپ ساڑھے تین سال کرسی کے ساتھ چمٹے کیوں رہے۔اصل میں آپ کسی کی دی ہوئی بے ساکھیوں پر کھڑے تھے کاش آپ اپنے نظریاتی لوگوں کو ساتھ لے کر کچھ انتظار کرتے تو انقلاب لے آتے ایسے شعر یاد آ گیا: تمہارے ساتھ رہنا ہے مگر ایسے نہیں رہنا تمہیں گر کچھ نہیں سننا ہمیں بھی کچھ نہیں کہنا میں نے جہاں سے بات شروع کی تھی پھر وہی پر آتا ہوں کہ پرویز الٰہی کی ڈوریاں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں یہ سب مل کر چل رہے ہیں بھولے خان کی سمجھ میں اب بھی نہیں آ رہا وہ ضرورت سے زیادہ سمجھدار ہیں اور اچھے وقت کے انتظار میں ہیں ایک نشانی یہ کہ حمزہ شہباز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مقرر ہو گئے ہیں یعنی بیساکھی یا راکھی ابھی قائم رہے گی کوئی بھی آئے حصہ دار حصہ دار ہی رہیں گے۔دوسری طرف رانا ثناء اللہ شیر بنے ہوئے ہیں کہ کچھ عہد و پیمان کے ساتھ ہونگے وگرنہ وہ شاعرانہ انداز میں قافیہ پیمائی نہ کرتے کہ عمران خاں کے لانگ مارچ کو ڈانگ مارچ کا ڈر ہے یہ ایک پیغام ہے وگرنہ وہ لانگ مارچ بھی کہہ سکتے تھے ویسے خان صاحب نے حکومت کو مسلسل انتظار کی اذیت میں ڈال رکھا ہے۔ظہور نظر کا ایک شعر یاد آ گیا: رات بھر اک چاپ سی پھرتی رہی چاروں طرف جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں اب تھوڑی سی بات کرکٹ کی ہو جائے کہ سیاسی دنگلوں کے بعد یہ موقع کم کم ہی ملتا ہے کرکٹ کا میچ دیکھ لیں وہ بھی پاکستان اور انڈیا کا۔میرے بیٹے زبیر بن سعد نے تو پہلے ہی اہتمام کر رکھا تھا سو ہم نے صبح میں صرف نماز میں وقفہ کیا اور میچ کا خوب لطف اٹھایا ابتدا پاکستانی بیٹنگ کی نہایت مایوس کن تھی اور ہم سمجھتے ہیں کہ بابر کو کچھ وقت کے لئے اپنی پوزیشن تبدیل کرنی چاہیے اس کے آئوٹ ہونے سے دیکھنے والوں کے دل بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر بھی ٹوٹل اتنا برا نہیں تھا اور ہمارے بائولرز 160کے ٹوٹل کو مشکل بنا دیا میچ پاکستان کی گرفت میں نظر آ رہا تھا مگر یہ ماننا پڑے گا کہ کوہلی نے اپنی کلاس ثابت کر دی اور بھارت کو کامیابی سے ہمکنار کیا اصل میں ہمارے بائولرز گڑ بڑا گئے یہاں شاہین آفریدی بھی متاثر نہ کر سکا صرف نسیم شاہ کامیاب رہا عمر گل اور محمد عامر یاد آئے کہ یہ ہمارے فاسٹ بائولرز کو یارکرز کی شاید پریکٹس نہیں اور پھر کچھ کچھ امپائرز کا بھی کمال تھا وہی جو کسی نے کہا کہ پہلی مرتبہ کوہلی کو روند مارتے دیکھا پہلے نو بال پر فری ہٹ اور پھر ہماری دریا دلی کہ وائڈ بال نواز نے کروا دی ایسے میں اعصاب پر کنٹرول رکھنا مشکل ہو جاتا ہے پاکستان کرکٹ اکثر کروشل لمحات میں ہاتھ پائوں چھوڑ جاتی ہے لیکن ساری بات کا حاصل یہ ہے کہ ایسے اعصاب شکن میچ کم کم ہی ہوتے ہیں اس میچ کو مدتوں یاد رکھا جائے گا جتنا تو کسی ایک ٹیم کو ہوتا ہے اور یہ کیسا کہ آخری بال تک معلوم نہ ہو کہ کون جیتے گا محمد یار خاں امیر کا شعر ہے: شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا