ہم سبھی چونک پڑے ! اور پھر پے در پے گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔ ایسا معلوم ہوا جیسے دو گروہ ایک دوسرے سے ٹکرا گئے ہوں۔ اﷲ ڈینو تیزی سے دروازے کی طرف لپکا اور اس کے پیچھے میں !..... میرے ساتھ ہی کیپٹن عماد بھی تیزی سے حرکت میں آیا تھا اور عدنان بھی ۔ میں نے دروازے سے نکلتے نکلتے جونی کی آواز سنی ۔’’ حملہ کردیا ان لوگوں نے !‘‘ اس کے لہجے میں خوف تھا۔ اﷲ ڈینو نے چیخ کر اپنے آدمیوں سے کچھ کہا ۔ اس نے یہی پوچھا ہوگا کہ یہ کیا ہوا ہے ؟ کسی نے چیخ کر اﷲ ڈینو کو جواب بھی دیا ۔ ہم اس وقت مرکزی دروازے کی طرف دوڑ رہے تھے ۔ ’’سامنے کی طرف سے آٹھ دس آدمیوں نے میرے آدمیوں پر گولیاں چلائی تھیں ۔ جواب میں میرے آدمیوں نے بھی فائرنگ شروع کردی ہے ۔‘‘ ’’کیا فائرنگ کرنے والوں نے اندر آنا چاہا تھا؟‘‘میں نے پوچھا۔ ’’نہیں۔ ‘‘ اﷲ ڈینو دروازے کے قریب رک گیا ۔ سوچے سمجھے بغیر بے تحاشا باہر نکلنے میں اندیشہ تھا کہ اندھا دھند چلنے والی گولیوں میں سے کوئی اسے چاٹ جاتی ۔ ’’یہ تو بے مقصد فائرنگ ہوئی ۔‘‘عماد بولا۔ یہ تبصرہ اس نے اس لیے کیا تھا کہ اندر آنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی ۔بس گولیاں برسانی شروع کردی گئی تھیں ۔ یقینا ان لوگوں نے خود کو آڑ میں بھی رکھا ہوگا۔ یکایک میرے دماغ میں ایک خیال آیا۔ ’’ میں ابھی آتی ہوں۔‘‘میں نے عماد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور تیزی سے واپسی کیلیے مڑی ۔ عدنان کو تو میرا ساتھ دینا ہی تھا۔اس کے شانے پر بیٹھے ہوئے عقاب کے پنجے ادھر سے ادھر ہونے لگے تھے۔سر بھی دائیں بائیں گھوم رہا تھا۔یہ اس کی بے چینی تھی جس کا سبب گولیاں چلنے کی آوازیں تھیں ۔میں دوڑتی ہوئی جیسے ہی اس طرف مڑی جہاں جونی کا کمرا تھا مجھے سامنے ایک نقاب پوش نظر آیا جو ہاتھ میں ریوالور لیے ایک کمرے کا دروازہ کھول کر وہاں جھانک رہا تھا۔ میرے خیال کے مطابق اسے جونی کی تلاش تھی لیکن اسے جونی کے کمرے کا علم نہیں تھا۔ میری آہٹ نے اسے چونکا یا اور اس نے دیوار کا رخ میری طرف کرتے ہوئے فائر جھونک مارا۔میں کیوں کہ اس کے ہاتھ میں ریوالور دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ وہ مجھ پر ضرور فائر کرے گا اس لیے میں جست لگا کر گولی کا نشانہ بننے سے بچ گئی بچنے کے ساتھ ہی میں نے اپنا ریوالور نکالا ۔ اسی دوران میں مجھے عدنان کے عقاب کی چیختی ہوئی آواز سنی ۔چیخ کے ساتھ ہی وہ بجلی کی طرح نقاب پوش کی طرف جھپٹا تھا۔ نقاب پوش نے اس پر بھی گولی چلائی لیکن وہ بوکھلاہٹ میں چلائی ہوئی گولی تھی جس کا نشانہ خطا ہونا ہی چاہیے تھا ۔ عقاب نے اس کے ریوالور والے ہاتھ پر جھپٹا مارا ۔ اس کے خار جیسے پنجوں اور چونچ سے کھائے ہوئے زخم کے سبب ریوالور نقاب پوش کے ہاتھ سے گر پڑا ۔اب عقاب نے فرش پر گرے ہوئے ریوالور پر جھپٹا مارا اور ریوالور اپنے پنجوں میں دبا کر عدنان کی طرف پلٹا عدنان بھی اس گولی سے محفوظ رہا تھا جو نقاب پوش نے مجھ پر چلائی تھی ۔ عقاب کا یہ ’’کارنامہ‘‘ ایسا تھا کہ میں شاید دوچار لمحوں کے لیے دم بہ خود رہ گئی تھی، انہی لمحوں سے نقاب پوش نے فائدہ اٹھایا اور جست لگا کر بھاگا۔ ’’خبردار! رک جائو۔‘‘ میں انگریزی میں چیخی اور ساتھ ہی فائر بھی کیا۔ میں اس کی کسی ٹانگ کو نشانہ بنانا چاہتی تھی لیکن عقاب کی حرکت کے باعث میرے جو چند لمحے ضائع ہوئے تھے وہ نقاب پوش کے کام آگئے، میرے ریوالور سے گولی اس وقت نکلی جب نقاب پوش ایک طرف مڑ چکا تھا، میں اس طرف دوڑی اور دوڑتے ہی میں نے چیخ کر کہا ۔’’عدنان ! تم جونی کے پاس جائو ۔‘‘ در اصل مجھے یہ اندیشہ لاحق ہوا تھا کہ شاید کوئی دوسرا نقاب پوش بھی ہو ۔ میرا یہ شبہ درست ثابت ہوا تھا کہ کچھ لوگوں نے سامنے سے گولیاں برسانی شروع کردی تھیں تو یہ کوئی بے مقصد بات نہیں تھی، اس طرح انہوں نے اﷲ ڈینو کے سبھی آدمیوں کو اس طرف متوجہ کیا تھا اور کسی دوسری جانب سے ان کا ایک آدمی اندر آگیا تھا یا شاید کوئی دوسرا بھی ہو، اسی لیے میں نے عدنان کو جونی کی طرف بھیجا تھا۔ میں نقاب پوش کے قدموں کی آہٹ سے اندازہ لگا کر اس کا تعاقب کر رہی تھی وہ مجھے دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔اگر دکھائی دے جاتا تو اس مرتبہ میرے ریوالور سے نکلی ہوئی گولی اس کی ایک ٹانگ یقینا زخمی کردیتی جس کے بعد بھاگنا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ وہ مجھے اس وقت نظر آیا جب عمارت کے ایک حصے سے باہر نکل کر وہ ایک جنگلا پھلانگتا ہوا قریب کھڑی ایک کار کی طرف لپک رہا تھا۔ جنگلا میں نے بھی پھلانگا لیکن میرے لباس کا ایک حصہ کسی نوک دار چیز میں پھنس کر نہ صرف جھر سے پھٹا بلکہ اس رکاوٹ کے باعث میرے جسم کو خفیف سا جھٹکا بھی لگا۔جنگلا پھلانگتے ہوئے بھی میں نے فائر کیا تھا لیکن جھٹکا لگنے کی وجہ سے میرا نشانہ اس بار بھی خطا گیا۔ ’’شِٹ!‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ پھر میں نے جھٹکا دے کر خود کو اس رکاوٹ سے تو نکال لیا جس نے میرا لباس پھاڑا تھا لیکن اس کوشش میں لباس اور زیادہ پھٹ گیا۔ میں کمر کے پاس سے تقریباً عریاں ہوگئی لیکن اس وقت مجھے اس کی پروا نہیں ہوسکتی تھی۔ جب میں نے خود کو اس رکاوٹ سے نکالا تھا، اسی وقت انجن اسٹارٹ ہونے کی آواز بھی سنائی دی تھی۔ جب میں نے ریوالور تانا، کار حرکت میں آکر تیزی سے آگے بڑھتی چلی گئی تھی۔ میں نے پھر ایک فائر کیا لیکن کار کی بہ تدریج لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی رفتار کے باعث میں اس کے ٹائر کو نشانہ بنانے میں ناکام رہی۔ دوسرا فائر بھی ضائع ہوا، اور اس کے بعد فائر کرنا حماقت ہی ہوتا کیونکہ میرے اندازے کے مطابق کار اب ریوالور کی رینج سے نکل چکی تھی۔ رات کا اندھیرا ہر طرف پھیلا ہوا تھا اور کار اس اندھیرے میں غائب بھی ہوچکی تھی کیوں کہ اس کا رنگ جو بھی ہو، تھا بہت گہرا تھا، یہ تو مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا رنگ گہرا چاکلیٹی تھا۔ صدف کو اس کا رنگ کیسے معلوم ہوا؟ کل کے روزنامہ 92 میں پڑھیے!