اسلام آباد(غلام نبی یوسف زئی)سپریم کورٹ نے وفاق اور خیبر پختونخواہ حکومت کے زیر انتظام سابقہ قبائلی علاقوں میں واقع حراستی مراکز کو غیر قانونی قرار دینے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے ۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے نظام عدل ریگولیشن سے متعلق ایک مقدمے میں قرار دیا ہے کہ وہ مقدمات جن کا تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہو اور سپریم کورٹ نے ان مقدمات میں حکم امتناعی جاری کیا ہو تو ان مقدمات کو لمبے عرصے تک زیر التوا رکھنا اور جلد سماعت کے لیے مقرر نہ کرنا انصاف کے تقاضو ں کے خلاف ہے اور اس سے اس عدالت کی آزادی ،اختیار اور عوام میں موجود عزت ختم ہوجاتی ہے ۔فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے 17اکتوبر 2019کو وفاقی کے زیر انتظام سابقہ قبائلی علاقہ جات (فاٹا) اور خیبر پختون خواہ حکومت کے زیر انتظام سابقہ علاقائی جات(پاٹا) میں قائم حراستی مراکز کو غیر قانونی اور پچیسویں آئینی ترمیم کے خلاف قراردیا تھا۔لیکن سپریم کورٹ نے 17اکتوبر 2019کو فیصلے کے خلاف وفاق اور صوبائی حکومت کی اپیل سماعت کے لیے منظور کرکے فیصلہ معطل کیا تھا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار سنیئر ترین ججوں پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے نومبر اور دسمبر 2019میں جزوی طور پر کیس سماعت کی لیکن اس کے بعد کیس سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوسکا۔فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ چیف جسٹس اور رجسٹرار حاصل اختیار انصاف عام کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے نہ کہ انصاف ختم کرنے کے لیے ۔انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ تمام مقدمات جن میں سپریم کورٹ نے حکم امتناعی جاری کیا ہے جلد سماعت کے لیے مقرر کیے جائیں ۔فیصلے میں رجسٹرار کو چیف جسٹس کی ہدایات کی روشنی میں مذکورہ بالا مقدمات جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا کے مختلف شعبہ جات کے ملازمین کی مستقلی کا ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کردیا ہے ۔منگل کو سپریم کورٹ نے خیبر پختون خواہ حکومت کے مختلف شعبوں کے ملازمین کی مستقلی کے خلاف صوبائی حکومت کی اپیل پر محفوظ فیصلہ صادر کیا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے فیصلہ سناتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کی اپیل منظور کرلی اور ملازمین کی ریگولرائزیشن سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔