اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ درخواست 23پولنگ اسٹیشنز میں ری پولنگ کے لیے دائر کی گئی تھی اور الیکشن کمیشن نے پورے حلقے میں ازسر نو ضمنی الیکشن کرانے کا فیصلہ دیا ؟۔ جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی مزید سماعت آج جمعرات تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا کہ سماعت آج مکمل کرلی جائے گی ۔عدالت نے لیگی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو آج تیاری کے ساتھ پیش ہونے اور عدالتی نظائر کی روشنی میں حقائق پر دلائل دینے کی ہدایت کی جسٹس عمر عطا بندیال نے سلمان اکرم راجہ کے دلائل پر ریمار کس دیتے ہوئے کہا کہ23 پولنگ اسٹیشنز کی درخواست پر 360 پولنگ اسٹیشنز کا ریلیف حیران کن ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پر منظم دھاندلی کی سازش کے الزام کو نہیں مانا جاسکتا لیکن حیرانگی ہے کہ پولنگ عملے کے ساتھ پولیس بھی غائب ہوگئی،آپ بنیادی بات پر آئیں،ہمیں شبہات پر رائے بنانے کی طرف نہ لے جائیں۔فاضل جج نے کہا بنیادی طور پر دو ہیوی ویٹس کی لڑائی ہے ،دونوں ہیوی ویٹس اناء کے ساتھ لڑ رہے ہیں،لڑائی بڑوں کی ہے اور بھگت عوام رہے ہیں۔تحریک انصاف کے امیدوار کے وکیل شہزاد احمد نے دلائل نمٹاتے ہوئے موقف اپنایا کہ امن وامان کی صورتحال اور ووٹوں کی کم شرح کی بنیاد پر انتخاب کالعدم نہیں کیا جاسکتا۔بدھ کو کیس کی سماعت شروع ہوئی توجسٹس بندیال نے کہا پر تشدد واقعات کی منظم منصوبہ بندی بارے الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں ہے ، معاملہ ٹرن آؤٹ کی کمی کا نہیں ہے ،پولنگ کا عمل رکنے کے واقعات ہوئے ۔مسلم لیگ ن کی امیدوار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ یہ عام کیس نہیں ہے ،یہ منظم دھاندلی سے متعلق کیس ہے ۔جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا غائب ہونے والے پریذائیڈنگ افسران پولیس سکواڈ میں تھے ؟۔وکیل نے کہا جی ہاں عملے کی گاڑی کے ہمراہ پولیس کی گاڑیاں بھی موجود تھیں۔عدالت نے سماعت ملتوی کردی تو ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے روسٹرم پر آکر کہا کہ پنجاب حکومت پر الزمات عائد کیے گئے ہیں،حکومت جواب دینا چاہتی ہے ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا الزامات بہت سنگین ہیں، حکومت متفرق درخواست کے ساتھ اپنا جواب جمع کرے ۔