تم سے اگر ہم پیار نہ کرتے اور بتا کیا کرتے پیار کا دریا پار کیا ہے ہم نے مرتے مرتے پیار کی راہ میں خون کا بہنا بن گئی اگر مجبوری ہر جانب تھے کانٹے بکھرے پائوں کہاں ہم دھرتے کیا کریں کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں اور کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں۔ تم نے روکے محبت کے خود راستے‘ اس طرح ہم میں بڑھتی گئی دوریاں۔ ایک بات تو طے ہے کہ ہم سب اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں کہ جس وطن کو بے شمار قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا تھا۔پھر رفتہ رفتہ ہوا کیا اس کی بنیادوں میں خون پسینہ بہانے والے کیا ہوئے میرے دل میں بہت قلق ہے بہت دکھ ہے اور بہت لاوا ہے۔ایسے ہی خیال آ گیا کہ ہماری کیا کیا آرزوئیں تھیں آئو رات کو روشن کر دیں تیری مانگ میں افشاں بھر دیں۔تیری نرم ہتھیلی پر ہم ایک چراغ آنسو کا دھر دیں۔ ہم حقیقت سے آنکھ کیوں چراتے ہیں کبوتر کو جان بچانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ ہائے ہائے معروف شعر کانوں میں گونجنے لگا۔ دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی‘ لوگوں نے میرے صحن سے رستہ بنا لیا۔ ہم اپنا محاسبہ کیوں نہیں کرتے یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ آخر ہونا تھا۔ پچھتر سالہ روایت کو یکسر بدلنا اتنا آسان نہیں ۔ میں نیت پر شک نہیں کر رہا مگر جس کے سر سے آسمان اور پیروں کے نیچے سے زمین جا رہی ہو وہ ہاتھ پائوں تو مارتا ہے۔ مگر فرسٹریشن میں ایسے میں بلی شیر کی آنکھیں نوچنے کو آتی ہے کوئی حکمت کارگر نہ ہو تو پھر کوئی کیا کرے۔کہتے ہیں کسی غریب کی بھی اخیر نہیں دیکھنی چاہیے۔اپنے دوست عدیم ہاشمی یاد آ گئے: اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی میں نے عدیم اس کو مکرنے نہیں دیا جب ملک خطرے میں پڑ جائے تو پھر سب سے پہلے ملک کا سوچنا ضروری ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ ہم یلغار کس کے خلاف کر رہے ہیں۔الیکشن کے مطالبے کے میں حق میں ہوں۔پی ڈی ایم کو یہ چیلنج قبول کرنا چاہیے مگر انہوں نے ملک کا جو حال مہنگائی کے باعث کر دیا ہے وہ عمران کی شہرت اور مقبولیت سے پریشان ہیں اور ڈرے ہوئے ہیں۔اب وہ آئین کا سہارا لے کر ایک سال میں کچھ ترکیب ضرور لڑائیں گے۔حکومت ہر پتہ کھیلے گی۔عوام کو مرنے کے لئے تو نہیں چھوڑا جا سکتا تو پھر فوج کا کردار بھی آئین ہی کا حصہ ہے۔ قوم کے لئے یہ لمحہ فکریہ تو ہے کہ موجودہ عوامل کس قدر گھمبیر ہو گئے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کو ایک ساتھ منظر عام پر آنا پڑا۔یہ انتہائی صورتحال ہے۔مزے کی بات یہ کہ خان صاحب نے اس بات کا اعتراف بھی کر لیا کہ انہوں نے یوں کہا تھا کہ اگر وہ توسیع دے رہے ہیں تو ہم بھی دے سکتے ہیں۔گویا ملاقات کا اعتراف کہ یہی عسکری قیادت نے کہا کہ اگر وہ میر جعفر اور میر صادق ہیں تو ان سے چھپ چھپ کر ملاقاتیں کیوں۔یہ بات بھی درست کہ جب ملک کو شدید خطرہ تو یہ تو ایسے میں خاموشی جرم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ غیر قانونی کام پر ساتھ نہ دیا تو انہیں جانور کہا گیا۔عدم اعتماد ایک آئینی حق تھا جو اپوزیشن نے استعمال کیا بہرحال یہ عسکری موقف سے جو انہوںنے قوم کے سامنے رکھ دیا۔ سیدھی سی بات ہے فوج ہے تو ملک ہے اور پھر فوج ماضی کی غلطیوں کو دھونے کی کوشش کر رہی ہے ویسے سب جانتے ہیں کہ خاں صاحب کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا جب وہ الیکٹوبلز لے کر اپنے نظریاتی دوستوں کو فراموش کر کے اقتدار میں آئے اور ساڑھے تین سال مزے اڑاتے رہے کوئی کارکردگی دکھاتے تو ہم بھی ان کے گن گانے جس طرح ہم ان کے لئے کیا کچھ لکھتے رہے۔تب تو جسٹس شوکت صدیقی کی باتیں بھی عسکری لوگوں کو سننا پڑیں۔ساری دنیا صرف آپ کے لئے تو پیدا نہیں ہوئی آزادی بالکل ضروری ہے اور حقیقی آزادی بھی یہ کام مگر پارلیمنٹ میں سب مل کر طے کریں۔ پارلیمنٹ کو طاقتور بنائیں۔عوام کا اعتماد حاصل کریں اس کیلئے جمہوریت ہے اور جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہیں۔ اب آخر میں ذرا سی بات کرکٹ کی بھی ہو جائے کہ کہا جا رہا ہے کہ ورلڈ کپ ٹوئنٹی کا بڑا اپ سیٹ ہو گیا کہ پاکستان زمبابوے سے ہار گیا ایسی کوئی بات نہیں وہ اچھا کھلے اور جیت گئے مجھے تو ایک محترمہ کا ٹویٹ بہت اچھا لگا کہ جو لوگ آسٹریلین طوطوں کے شوقین ہوں وہ پاکستان کرکٹ ٹیم سے رابطہ کریں کہ وہ آتے ہوئے کچھ قیمتی آسٹریلین طوطے لے آئیں ایک بات تو طے ہے کہ بابر اچھا کپتان نہیں ہے۔ ایک تو اس کا بیڈ پیچ چل رہا ہے جس سے پوری ٹیم متاثر ہو رہی ہے۔ حکمت عملی کوئی نہیں دوستیاں بھی نبھائی جا رہی ہے اس بات پر سب حیران کہ شاہین آفریدی سے پہلے جسے بھیجا گیا اس نے حساس موقع پر دس بالیں ضائع کیں اتنی بھی عقل نہیں کہ ایک رن لے کر دوسرے کو موقع فراہم کیا جائے۔ ویسے تو ساری پیش گوئیوں کا حظر ہو رہا ہے پہلے کرس گیل نے کہا تھا کہ وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں آسٹریلیا اور ویسٹ اینڈیز کو فائنل میں دیکھ رہے ہیں۔ ویسٹ انڈیز ورلڈ کپ کے لئے کوالی فائی نہ کر سکی اسی طرح باقی خوش گمانیاں بھی ایسے ہی نکلیں گی کبھی کبھی لگتا ہے کہ بس کرکٹ ایسے ہی ہے کم از کم ہماری کرکٹ کبھی تولہ اور کبھی ماشہ کوئی چل گیا تو بلے بلے اب 130سکور کوئی سکور نہیں تھا اور وہ بھی زمبابوے کی ٹیم کا بس دیکھتے جائیے ایک طرف سیاسی حالات منتشر ہیں اور دوسری طرف کرکٹ خزاں رسیدہ۔ اسلم انصاری کا ایک شعر: دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے حوصلہ دے