درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ایسے لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی میرا خیال ہے کہ آپ سمجھ گئے ہونگے کہ حکومت کی صورت حال کیسی ہے‘ شعروں کی وضاحت ضروری نہیں۔ میں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں کہ تھوڑا سا مسکرا لیا جائے اور نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں سے محظوظ ہوا جائے۔ ویسے بھی نوجوان شرارتیں کرتے ہوئے بہت اچھے لگتے ہیں اور اگر شرارتوں میں دانش اور بزلہ سنجی بھی ہو تو سونے پرسہاگہ ہے۔ ان دنوں ان کا نشانہ فواد چودھری ہیں کہ انہوں نے فواد کو ملا نصیر الدین بنا کر رکھ دیا ہے۔ جب سے انہوں نے روئت ہلال کمیٹی سے پھڈا ڈالا ہے اور کہا ہے کہ چاند دیکھنا خالصتاً ایک سائنسی کام ہے اس پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت نہیںاور جواب میں مفتی منیب نے کہا ہے کہ چاند دیکھ کر عید کی جاتی ہے: عجب نہیں کہ جو ہم اس کی دید کرتے ہیں ہلال دیکھ کے کچھ لوگ عید کرتے ہیں چاند کی بات تو خیر ایک طرف رہ گئی نوجوانوں نے فواد چودھری کو سائنس دان ڈکلیئر کر دیا اور اس کے ساتھ ایسی ایسی ایجادات اور دریافتیں وابستہ کر دی ہیں کہ ہنسی آنے لگتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ فواد چودھری کی مقبولیت بھی ہے کہ نوجوان ان سے پیارکرتے ہیں ۔نوجوانوں نے کیسی کیسی پوسٹیں لگائی ہیں‘ مشت از خروارے کے طور پر ایک دوپوسٹیں دیکھتے ہیں۔ ’’بھینس دم اس لئے ہلاتی ہے کہ دم میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ بھینس کو ہلا سکے‘‘ نیچے لکھا ہے۔وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری کی تازہ تحقیق ایک اور جگہ ان کے ساتھ ایک اور تحقیق منسوب کی گئی ہے اور’’ اگر جامن کے پودے کے نیچے گلاب لگا دیا جائے تو اس پر گلاب جامن لگیں گے‘‘۔ مجھے یاد آیا کہ ایسے ہی کسی سائنس دان سے کسی نے سوال کیا کہ بتائیں کہ روشنی پہلے کیوں نظر آتی ہے اور آواز بعد میں کیوں سنائی دیتی ہے خاص طور پر جب برق چمکتی ہے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں مگر بادلوں کی گرج بہت بعد میں سنائی دیتی ہے۔ اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہر نے کہا یہ اس لئے ہے کہ ہماری آنکھیں آگے ہیں اور کان پیچھے۔ دیکھیے آپ اس ادب کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہ ویسا ہی ادب ہے جو بسوں اور ویگنوں میں لکھا ہوا ملتا ہے تاہم وہ اشعار ہوتے ہیں اور یہ نثر یہ فن پارے جو سوشل میڈیا کی زینت بنتے ہیں ان شرارتی بچوں کے ہاتھ پہلے فراز آئے ہوئے تھے کہ وہ اپنے ہر الٹے سیدھے شعر میں فراز جڑ دیتے تھے مگر یہ ان کے جانے کے بعد ہوا تھا۔ ہاں آپ اس نوع کی پذیرائی میں میرا کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس کی انگریزی کے چرچے کہاں کہاں نہیں ہوئے وہ بھی اس حوالے سے ہنسی کا گول گپا بن کررہ گئی۔ چونکہ میرا سبجیکٹ انگریزی ہے تو میں بھی میرا کی انگریزی سے مستفید ہوا اور خوب لطف اٹھایا۔ اب بات چل نکلی ہے تو فیاض الحسن چوہان اور فردوس عاشق اعوان کو یکسر نظر انداز کر دینا ان کی حق تلفی کے مترادف ہو گا۔ فیاض الحسن تو اپنی تندو تیز زبان کے باعث میڈیا کی آنکھ کا تارا بنے رہے۔ یہ منصب پہلے شیخ رشید کے پاس تھا جب وہ نواز شریف کی حمایت میں مرحومہ بے نظیر کے لئے بے لباس جملے استعمال کیا کرتے تھے۔ فیاض الحسن چوہان دو قدم آگے نکلے مگر نرگس سے انہیں معافی مانگنا پڑی۔ ان کا ڈمی کردار مزاحیہ پروگرامز کی زینت بنتا رہا۔ اب کے فردوس عاشق اعوان پوری طرح سے ان ہیں۔ ایک خاکہ تو ان کا عہد حاضر کے لیجنڈ اداکار سہیل حمد نے پیش کیا جو قدرے مزاحیہ اور فری سٹائل ہے۔ دیکھنا مگر یہ کہ محترمہ کا کردار کتنا ورسٹائل ہے آپ جو بھی کہیں پی ٹی آئی کے دور میں مزاحیہ اور طنزیہ پروگرامزکو اتنے زیادہ کردار میسر آئے ہیں کہ مثال نہیں ملتی ۔یہ ان کا ایک بڑا کنٹری بیوشن ہے ابھی تو میں نے فیصل واوڈا کا ذکر نہیں کیا۔ اس میں شک نہیں کہ بے چارے بلاول کی بھی بہت بعد اڑائی گئی مگر ان کا تو لسانی مسئلہ ہے کہ وہ رومن میں لکھی ہوئی اردو نہیں پڑھ سکتے۔ دوسری جانب عمران خاں کب کسی سے کم ہیں کہ بلاول کو صاحبہ بنا دیا ہے۔ یہیں تک نہیں ان رعونیات(روحانیات ) کے بہت چرچے ہوئے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ اپنی غلطی پر گھبراتے نہیں بلکہ انجوائے کرتے ہیں اور وہ ہر دفعہ ایک نئی غلطی کرتے ہیں اور اپنی غلطی سے سیکھتے بھی نہیں۔ میرے معزز قارئین ! آپ بھی کہتے ہونگے کہ یہ کالم ہے یا کوئی مزاحیہ تاریخ چلیے دو شعر آپ کو پڑھا دیتے ہیں: پھر چشم نیم وا سے ترا خواب دیکھنا اور اس کے بعد خود کو تہہ آب دیکھنا ٹوٹا ہے دل کا آئینہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکست ذات کے اسباب دیکھنا مجھے معاً خیال آیا کہ کتنے اور کردار بھی ہیں جو ایک ایک کر کے میرے سامنے چلے آتے ہیں۔کم از کم اسلم رئیسانی کو تو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جنہوں نے کہا تھا کہ ’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی‘‘ پھر ایک اور نابغہ تھے پیپلز پارٹی کے جنہوں نے کہا تھا کہ کرپشن پر ان کا بھی حق ہے لہٰذا نہیں بھی اجازت ملنی چاہیے ۔ یہ تب کی بات ہے جب پیپلز پارٹی نے کرپشن پر کئے گئے این آر او کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی تھی۔ پھر قائم علی شاہ کدھر جائیں کہ ایساکون ہو گا جو آ کر اسمبلی میں نیند پوری کرتا ہو اور اٹھتے ہی پھلجھڑیاں چھوڑتاہو۔ اس حوالے سے ہمیں نواز شریف زیادہ معصوم لگے کہ وہ بونگیاں مارنے کی بجائے پرچیاں دیکھ لیتے ہیں یعنی بوٹی لگا لیتے ہیں۔ جہاں وہ بوٹی نہیں لگاتے وہاں وہ سچ اگل دیتے ہیں اور دھر لیے جاتے ہیں۔ مگروہی بات عمران خان کر جائیں تو صاف گو کہلاتے ہیں۔ میں کالم کو بہت زیادہ سنجیدگی کی طرف نہیں لے کر جانا چاہتا۔ ارادہ یہی تھا کہ کچھ مزاحیہ کرداروں کا تذکرہ کر کے لطف اٹھایا جائے اس ضمن میں سندھ کے وزیر’’ خواب‘‘ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ منظور وسان کو مگر زیادہ شہرت نہیں ملی کہ ان کے کسی خواب کو کبھی تعبیر نہیں ملی۔ بہرحال بات چلی تھی آج کے ملا نصیرالدین سے آپ اگر ملا نصیر الدین سے واقف نہیں تو افسوس ہے ایک مرتبہ کوئی ملا نصیر الدین سے گدھا مانگنے آیا تو ملا نے کہا ’’گدھا تو نہیں ہے‘‘اتنے میں گدھا اندر سے ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگا۔ آنے والے نے کہا ’’ملا تجھے شرم نہیں آئی جھوٹ بولتے ہوئے‘‘ ملا نے کہا اب تو تجھے گدھا بالکل بھی نہیں ملے گا کہ تونے میری بات پر یقین نہیں کیا‘ گدھے پرکر لیا۔ جو بھی ہے ہمارے سائنس دان فواد چودھری اب کے ٹاک آف دی ٹائون ہیں۔ سنا ہے اسد عمر کو بھی نیا محکمہ مل رہا ہے مگر محکمے تو لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ حوریہ کے ایک شعر کے ساتھ اجازت: اس سے ٹکرا کے مر گئی تتلی پھول دیوار پر بنا ہوا تھا