وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وبا سے متعلق قانون سازی پر مشاورت کے لئے بلائے گئے اجلاس میں کہا ہے کہ حکومت صحت کے شعبے میں اصلاحات کے لئے پیکیج لائے گی۔ کورونا کی وبا کے دوران پورے ملک میں صحت کی سہولیات اور انفراسٹرکچر سے بڑی تعداد میں عوام کو جس طرح کی شکایات پیدا ہوئیں ان کے پیش نظر فوری اصلاحات ضروری ہیں۔ کورونا سے پہلے ڈینگی نے کئی برس سے پاکستان میں خطرات پیدا کر رکھے ہیں جس کے تدارک کی خاطر مستقل نظام قائم کرنے کی بجائے برسہا برس سے عبوری اور وقتی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔اس برس کورونا کی وبا پھیلی تو ڈینگی کی طرف کسی نے توجہ ہی نہیں جس کا نقصان یہ ہوا کہ ڈینگی اور پولیو بھی دوبارہ سے سر اٹھا رہے ہیں ۔ حکومت کو اب ہنگامی بنیادوں پر ڈینگی کے خلاف بھی اقدامات کرنے چاہیں ۔حالیہ برس فروری کے ماہ سے کورونا نے پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اثرات پھیلائے۔وزیر اعظم نے ابتدا سے یہ موقف اختیار کیا کہ مکمل لاک ڈائون سے لاکھوں افراد کے بھوکا مرنے کا اندیشہ ہے لہٰذا کبھی لاک ڈائون‘کبھی سمارٹ لاک ڈائون نافذ کیا جا رہا ہے۔ سرکاری اداروں کو کئی ہفتے تک بند رکھنے کے بعد مرحلہ وار کھولا گیا‘تعلیمی ادارے تاحال بند ہیں۔شاپنگ مال اور بازار کھولنے کی اجازت اس شرط پر دی گئی کہ ایس او پیز پر مکمل عمل ہو گا۔ ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج ملک بھر میں کورونا کیسزبڑھ رہے ہیں ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ملک میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 174676ہو گئی ہے جن میں سے اب تک 3436متاثرہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ معمولی سی دوا کا نام کورونا میں موثر ہونے کے حوالے سے سامنے آتا ہے اور اس کی قیمت راتوں رات بے قابو ہو کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ہسپتالوں میں مریض رکھنے اور ان کی دیکھ بھال کی گنجائش نہیں رہی۔ پرائیویٹ ہسپتال کسی سرکاری ضابطے میں نہیں۔ مریضوں کو چند روز رکھنے کی فیس بے خوف ہو کر لاکھوں روپے میں لی جا رہی ہے۔ٹیسٹنگ سہولیات مفقود ہیں ،ملک بھر میں سرکاری سطح پر اچھی اور قابل بھروسہ لیبارٹریز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جلدکی حساسیت کا علاج کرنے والا ملک میں ایک مرکز ہے جو اسلام آباد میں واقع ہے۔ چند بڑے شہروں کے سوا امراض قلب کے لئے کوئی علاج گاہ نہیں۔پورے بلوچستان میں صرف کوئٹہ میں کارڈیالوجی سنٹر ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں کے حکمران عشروں سے اپنا علاج بیرون ملک سے کراتے اور عوام کو صحت کی جدید سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کر کے ووٹ لیتے رہے ہیں۔حقیقت میں ہمارا صحت کا شعبہ صرف اور صرف ایک ڈھانچہ نظر آتا ہے جس میں مریضوں کے لیے کوئی سہولیات ہی نہیں ہیں ۔ حالیہ دنوں وفاقی حکومت نے سندھ اور پنجاب میں متعدد ہسپتالوں کا کنٹرول دوبارہ سنبھال لیا ہے۔وفاقی بجٹ میں کراچی کے تین ہسپتالوں کے لئے 14ارب روپے مختص کئے گئے۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ مرکز صوبوں کو دیے گئے اختیارات چھین رہا ہے۔ دوسری طرف یہ بات درست ہے کہ 2010ء میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں نے دیگر شعبوں کی طرح صحت کے شعبے کو بھی نظر انداز کیا۔ یوں اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کا فائدہ عوام کے لئے فائدہ مند نہیں رہنے دیا گیا۔صحت کے شعبے میں ایک اہم معاملہ نجی میڈیکل کالجز اور پی ای ڈی سی کے درمیان کھینچا تانی ہے۔ پھر آئے روز پیرا میڈکس اور ڈاکٹروں کا احتجاج و ہڑتالیں۔حکومت کوئی بھی ہو طبی عملہ مریضوں کے علاج معالجے کا عمل روک کر سڑکوں پر آتا ہے اور اپنے مطالبات منوانے تک ہڑتال جاری رکھی جاتی ہے۔ ایسی ہڑتالوں کے دوران مریضوں کی جانیں چلی جاتی ہیں۔ اس روش کے خاتمے کے لئے موثر قانون سازی ضروری ہے۔کورونا جیسی وبا میں بھی ہمارا طبی عملہ ہڑتال پر رہا ہے ،اب بھی آئے روزکسی نہ کسی شہر میں ڈاکٹرز کی ہڑتال سننے میں آتی ہے ۔ ملک بھر میں ادویات کی فروخت اور قیمتوں میں استحکام کے لئے ڈرگ ریگولیٹری ادارہ قائم کیا گیا۔ اس ادارے کے قیام کے بعد سے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں۔ادویہ ساز اداروں سے گٹھ جوڑ کر کے عوام کا استحصال عام ہو چکا ہے۔کورونا کے دنوں میں بھی کئی قسم کی معمولی سی ادویات کو مارکیٹ سے غائب کر کے بلیک میں فروخت کیا جا تا رہا ہے ۔ہیپاٹائٹس جیسے امراض کی مقامی سطح پر تیار نئی ادویات کو مارکیٹ میں آنے سے روکا جاتا ہے تاکہ ملٹی نیشنل ادویہ ساز کمپنیوں کا کاروبار متاثر نہ ہو۔صحت کا شعبہ عام آدمی کو براہ راست متاثرکرتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت کسی جماعت کی ہو‘ بجٹ وفاق کا ہو یا صوبوں کا، صحت جیسے شعبے کی ضروریات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ امر لائق تحسین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس شعبے میں اصلاحات متعارف کروا کر اسے عام آدمی کے لئے مفید سہولت میں بدلنا چاہتے ہیں۔شوکت خانم کینسر ہسپتال کی شکل میں وہ ذاتی طور پر صحت کے معاملات بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔لیکن اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ عوام دشمن عناصر ان کے ارادوں میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔اس لیے انھیں ایسے افراد پر بھر پور نظر رکھنی چاہیے تاکہ ان کے منصوبے جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچ سکیں ۔ ملک میں مختلف امراض کا چارٹ‘ مختلف علاقوں کی ضروریات اور فی کس ہیلتھ اخراجات کو سامنے رکھ کر اگر حکومت بہتر ہیلتھ انفراسٹرکچر پیش کر سکے تو اس کے اثرات خوشگوار ہو سکتے ہیں۔ خصوصاً علاج کے نام پر دھتکارے گئے محروم طبقات اس خدمت کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔