پارلیمانی جمہوریت کی داغ بیل ڈالنے والوں کے خواب و خیال میں نہ رہا ہوگا، کہ اس نظام کا اہم ستون یعنی الیکشن جنوبی ایشیا میں خاص طور پر کاروبار کا روپ دھار کرکے بلیک مارکیٹ سے زیادہ وسیع اور دست غیب سے بھی زیادہ طلسماتی بن سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھارت میں الیکشن کمیشن نے پارلیمانی انتخابات لڑنے والے امیدواروں کیلئے خرچہ کرنے کی حد کو 75لاکھ اور بڑے حلقوں میں 95لاکھ کی، تو ایک دن میں نے دارلحکومت دہلی میں اپنے حلقہ جنوبی دہلی کا دورہ کرکے معلوم کرنے کی کوشش کی ، کہ ایک امیدوار کو پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کیلئے کس قدر رقم کی ضرورت پڑتی ہوگی۔دیکھا کہ اس حلقہ کے 846 پولنگ بوتھوں سے ذرا دوری پر تینوں بڑی پارٹیوں یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) عام آدمی پارٹی یعنی عآپ اور کانگریس کے ذیلی دفاتر کھلے ہیں، جن میں دس سے بیس افراد ہمہ وقت موجود رہتے ہیں، چائے ، ناشتہ کے دور دن بھر چلتے رہتے ہیں۔ان سبھی عارضی دفاتر کیلئے خیمہ، لاوڈ اسپیکر، ٹرانسپورٹ کا انتظام ہے۔ ووٹنگ کے دن پولنگ بوتھوں کیلئے ہر پارٹی نے چار پولنگ ایجنٹ تعینات کئے ہوئے تھے۔ جب خیمہ کرایہ پر دینے والوں، لاوڈ اسپیکر فراہم کرنے والوں اور جن ہوٹلوں سے ناشتہ ، چائے وغیرہ آتی تھی، سے پتہ کیا ، تو معلوم ہوا کہ ہر امیداوار کا خرچہ ایک ماہ کی کیمپینگ کا ساڑھے تین کروڑ سے کم نہیں تھا۔ یہ 2014 کی کہانی ہے۔ یہ خرچہ ا ب دس کروڑ سے زیادہ تجاوز کر گیا ہوگا۔ یہ رقم اس کے علاوہ ہے، جو پارٹی کا مرکزی دفتر تشہیر اور لیڈروں کے جلسوں کے انعقاد کیلئے خرچ کرتاہے۔بہت سے امیدوار اپنی انتخابی مہم کے دوران نقد رقم اور دیگر تحائف سائیکل ، ساڑھیاں، فون، کچن کا ساز و سامان اور یہاں تک کہ بکرے ، مرغ اور شراب کی بوتلیں بھی ووٹروں کو لبھانے کیلئے دیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بڑے جلسوں یعنی وزیر اعظم نریندر مودی کے ہر جلسے پر 50 کروڑروپے کی لاگت آتی ہے، اس میں ان کی نقل و حمل کی لاگت شامل نہیں ہے، کیونکہ اس کا خرچہ بھارتی فضائیہ اور ان کی حفاظت پر مامور اسپیشل پروٹیکشن گروپ کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اپوزیشن کو بھی بڑی ریلیوں پر اتنی ہی یا کچھ زیادہ ہی ر قم خرچ کرنی پڑتی ہوگی، کیونکہ ان کو چارٹرڈ جہاز اور ہیلی کاپٹر وغیرہ کا کرایہ اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے۔امیدواروں کیلئے پھر ایک اور خرچہ انتخابات کے بعد کا ہوتا ہے، جب ان کو بھاری رقوم خرچ کرکے چارٹرڈ اکاوٹینٹ متعین کرتے پڑتے ہیں، جو ہیر پھیر کرکے الیکشن کمیشن کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس کی متعین کردہ حد کے اندر ہی رقوم خرچ کی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے افسرا ن نیز عوام کو بھی پتہ ہوتا ہے یہ امیدوار کی مہم کا آدھے دن کا بھی خرچہ نہیں ہوسکتا ہے، مگر کیا کیا جائے کورپشن کی اصل جڑ کو درکنا ر کرکے اگلے پانچ سال تک زبانی جمع خرچ کرکے بدعنوانی پر قد غن لگانے کے نام پر دکھانے کیلئے حریفوں کے ہاں ریڈ کرواکے پھر اگلے انتخاب کی تیاری کی جاتی ہے۔ حکمرانوں کو جوابدہ بنانے کے لیے جو پارلیمانی نظام اپنایاگیا تھا، وہ اب سرمایہ داروں کی لونڈی بن چکا ہے۔ انتخابات کا طریقہ کار ہی ایسا ہے کہ اس کی جڑیں کرپشن کی زمین میں گڑی ہیں۔ بھارت میں ،جہاں عام انتخابات کا بغل بج چکا ہے، اس بار ایک اندازے کے مطابق 1.20 ٹریلین روپے یعنی 14.4بلین ڈالر خرچ ہو جائینگے۔ ان میں سے الیکشن کمیشن کا خرچ صرف بیس فیصد ہی ہے۔ اسٹیٹسٹا ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق، 2019 کے انتخابات میں 550 بلین روپے خرچ کیے گئے تھے۔ ان میں حکمران جماعت بی جے پی نے تقریباً 275 بلین روپے خرچ کئے تھے۔ 2020 میں امریکی صدارتی اور کانگریس کے انتخابات میں بھی تقریباً 14.4 بلین ڈالر خرچ کیے گئے تھے۔ یعنی انتخابی اخراجات کے مقابلے میں بھارت امریکہ کی برابری کرنے کی پوزیشن میں پہنچ چکا ہے۔فرق بس اتنا ہے کہ امریکہ میں سیاسی امیدواراں کی فنڈنگ کا سسٹم شفاف ہے۔ یعنی ووٹروں کو معلوم ہے کہ کون کس امیدوار کو رقوم فراہم کر رہا ہے اور اس کے بدلے میں کیا فائدے چاہتا ہے۔ جنوبی ایشیاکی جمہوریت میں فنڈنگ کا یہ سسٹم دبیز طلسماتی تہہ میں دبا ہوا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کو اور زیادہ پیچیدہ بناتے ہوئے2017میں بھارت کے اسوقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے ایک عجیب و غریب اسکیم کا اعلان کیا۔جس کے مطابق جو کارپوریٹ ادارے سیاسی پارٹیوں کو رقوم دینا چاہتے ہیں، وہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا جاکر بانڈ خریدیں، جس پر کسی کا نام درج نہیں ہوگا۔ یہ ایسا ہی سسٹم ہے، جیسے پوسٹ آفس سے پوسٹل آرڈر ملتا تھا۔ مگر ظاہر سی بات ہے کہ بینک، جو وزرات خزانہ کے تحت کام کرتا ہے، اپنے پاس تو ریکارڈ رکھتا ہی ہے، اور حکمرانوں کو اس تک رسائی تو ہوتی ہی ہے ۔یہ سسٹم اس لئے لاگو کیا گیا تھا تاکہ سیاسی پارٹیوں اور عوام سے یہ پوشیدہ رکھا جائے کہ کس کارپوریٹ ادارے نے کس پارٹی کو کتنی رقوم دیں۔ کارپوریٹ اداروں کو تحفظ دینا مقصود تھا، تاکہ اگر کوئی ایسی پارٹی پاور میں آتی ہے، جس کو انہوں نے فنڈ نہ کیا ہو، و ہ اس کے عتاب کا شکار نہ ہوجائیں۔ مگر بھلا ہو سپریم کورٹ کا ، جس نے حال ہی میں اس سسٹم کو کالعدم کرکے حکم دیا کہ ووٹرو ں کیلئے یہ جاننا لازم ہے کہ جس پارٹی کو وہ ووٹ دے رہے ہیں، اس کو کون رقوم دے رہا ہے۔ کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو حکم دیا کہ یہ ڈیٹا فی الفور الیکشن کمیشن کے حوالے کرے اور الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ اس کو اپنی ویب سائٹ پر عام کردے۔بینک نے پہلے تو لیت و لیل سے کام لیکر اس کو جون تک ٹالنے کی کوشش کی، مگر کورٹ کے سخت رویہ کے بعد اس کو یہ ڈیٹا عام کرنا ہی پڑا۔ ان اعداد و شمار کے مطابق، حکمران بی جے پی کو 2018 سے 2022 تک کل 92 بلین روپے ($ 1.1 بلین) روپے کے بانڈ ملے۔یعنی کل نتخابی بانڈز کی مالیت کا 57 فیصد اس نے حاصل کیا۔اہم اپوزیشن کانگریس پارٹی کو اسی مدت میں 9.6 بلین روپے یا 10 فیصد بانڈ ملے۔ اہم بات یہ ہے کہ کچھ کارپوریٹ اداروں نے خسارے میں ہوتے ہوئے بھی دل کھول کر سیاسی جماعتوں کو چندہ دیا، جس کی بس یہی ایک توضیح سامنے آسکتی ہے کہ یہ شاید شیل کمپنیاں تھیں۔ انتخابی بانڈز خریدنے والی 200 سرفہرست فرموں میں سے کم از کم 16 نے اس وقت عطیہ دیا جب ان کا اپنا کاروبار پچھلے تین سالوں مسلسل خسارے میں چل رہا تھا۔ وہ اپنے شئیر ہولڈرز کو پیسہ دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے، مگر مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں کو انہوں نے سات ارب ر وپے کا عطیہ دیا۔ اس میں سے 460 کروڑ روپے (60% سے زیادہ) بی جے پی کو دیے۔ (جاری ہے)