پنجاب کے صوبائی بجٹ میں وسیب کیلئے 35 فیصد الگ بجٹ رکھا گیا ہے اور ترقیاتی کاموں کیلئے 189 ارب روپے مختص ہیں ان میں چولستان کی ترقی کیلئے ایک ارب روپیہ شامل ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت نے کہا ہے کہ پنجاب کے موجودہ ٹیکس فری بجٹ سے انقلاب آئے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ پنجاب میں وسیب کیلئے الگ فنڈ مختص کئے گئے ہیں مگر ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ فنڈز کون استعمال کرے گا؟ پنجاب کے سیکرٹریز یا وسیب کے ایڈیشنل سیکرٹریز، اس بارے ابھی کچھ نہیں بتایا گیا اور نہ ہی کوئی اس طرح کی قانون سازی سامنے آئی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کے نام سے رکھے گئے فنڈ میں انفارمیشن اینڈ کلچر کے فروغ کیلئے 152 ملین شامل ہیں جبکہ وسیب میں انفارمیشن اور کلچر محکمے کا کوئی ایڈیشنل سیکرٹری بھی تعینات نہیں کیا گیا دیکھنا یہ ہے کہ اس فنڈ کو کس طرح استعمال میں لایا جاتا ہے۔ بجٹ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وسیب کے آثار قدیمہ کو بچانے کیلئے اقدامات سامنے نہیں آئے حالانکہ وسیب کے آثار کو بچانا حساس مسئلہ ہے۔ وسیب کے آثار ختم ہو رہے ہیں۔ پچھلے دنوں اٹلی سے وفد ملتان آیا جس نے ملتان کے قدیم آثار کو محفوظ کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں اٹلی کی حکومت نے ملتان کے آثار کو بچانے کیلئے وافر رقم مہیا کی مگر وہ خرچ نہ کی جا سکی۔ صرف ملتان پر ہی کیا موقوف پورے سرائیکی وسیب کے آثار مٹتے جا رہے ہیں ، ہمارے ٹھل ٹھیڑ، ماڑیاں ، مقبرے مسمار ہو رہے ہیں پر کوئی توجہ دینے والا نہیں ۔ گزشتہ 68 سال کا بجٹ اٹھا کر دیکھیں تو پوری کہانی سمجھ آ جائے گی کہ شاہی قلعہ لاہور پر کتنا سرمایہ خرچ ہوا اور قلعہ کہنہ ملتان یا وسیب کے آثار قدیمہ پر کتنا فنڈ خرچ ہوا ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ڈیرہ غازی خان کا قلعہ ہڑندبرباد، ڈیرہ اسماعیل خان کا کافر کوٹ اور ہندیرے تباہ، ملتان کے سینکڑوں آثار مسمار ، اوچ کے مزارات انہدام پذیر ، پتن مُنارہ بے نشان ، ڈیراور غیر محفوظ اور باقی تمام آثار مٹی کے ساتھ مٹی ہوتے جارہے ہیں ۔ ہندوں کے جانے کے بعد مندروں کی ذمہ دار حکومت وقت تھی مگر حکومت نہیں چاہتی کہ سرائیکی قوم کی عظمت کی نشانیاں محفوظ رہیں اور یہ قوم اپنے ماضی سے اپنا حال اور اپنا مستقبل تلاش نہ کر لے ۔ ملتان کے بارے میں ایک فارسی شعر’’ چہار چیز است تحفہ ملتان، گرد ، گرما، گداو گورستان ‘‘تو کہہ دیا گیا لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی کہ کن کن حملہ آوروں نے ملتان کو نیست و نابود کرنے کے بعد اسے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کیا ۔ کن کن حملہ آوروں نے ملتان جیسی عظیم ہستی بستی تہذیب کو گورستان بنایا اور وہ ملتان جسے تاریخ نے بیت الذہب یعنی سونے کا گھر کہا اور جہاں کے باسی سونے کی تاروں سے بنے ہوئے جوتے پہنتے تھے اور جہاں کے باسیوں کا شمار کائنات کے دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا ، انہیں کاسہ گدائی تک کس نے پہنچایا؟ ملتان ایک ذات کا نام نہیں بلکہ ایک کائنات کا نام ہے ۔ ماہرین آثار قدیمہ نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ملتان کائنات کے ان شہروں میں سے ہے جو ہزاروں سال سے مسلسل آباد چلے آ رہے ہیں ۔ ماہرین کا اس بات پر بھی کامل اتفاق ہے کہ تاریخ عالم میں ملتان صرف ایک شہر کے طور پر نہیں بلکہ ایک تہذیب اور ایک سلطنت کے طور پر کرہ ارض پر موجود ہے۔ 373 ھ کی ایک تصنیف ’’ حدود العالم بن المشرق الی المغرب ’’ میں سلطنت ملتان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ملتان کی سرحدیں جالندھر پر ختم ہوتی ہیں ۔ ایک کتاب ’’ سید المتاخرین ‘‘ میں لکھا گیا ہے کہ یہ خطہ بہت زیادہ زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع و عریض بھی ہے ۔ ایک طرف ٹھٹھہ ، دوسری طرف فیروز پور، جیسلمیر اور کیچ مکران تک کے علاقے اس میں شامل تھے ۔ ابوالفضل کی کتاب ’’ آئین اکبری‘‘ میں درج ہے کہ ملتان بہت بڑی اقلیم ہے، اس میں تین سرکاریں ملتان خاص دیپالپور اور بھکر شامل تھے ،کل ملتان کیا تھا اور لاہور کی کیا حیثیت تھی ؟ اس کا تذکرہ حضرت داتا گنج بخش ہجویری کی کتاب ’’ کشف المحجوب ‘‘ یکے از لاہور مضافاتِ ملتان کی صورت میں موجود ہے۔ آج ہم لاہور اور ملتا ن کے بارے میں عرض کریں گے کہ ’’ کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے ، ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے ‘‘ ۔ ہندی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ ’’ آگرہ اگر ، دلی مگر ، ملتان سب کا پِدر ‘‘ ۔ اسی طرح سرائیکی کہاوت ہے کہ ’’ جئیں نہ ڈٹھا ملتان ، او نہ ہندو نہ مسلمان ‘‘ ۔ ملتان کے بارے میں بہت سے شعراء نے شعر گوئی کی ۔ قدیم فارسی شاعر حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ کے نام سے منسوب ہے کہ ’’ ملتان ماء بجنت اعلیٰ برابر است ، آہستہ پابنہ کہ مَلک سجدہ می کند ‘‘ ۔ کچھ عرصہ پہلے کراچی سے ایک تحقیقی کتاب موسوم بہ Paradise Gods شائع ہوئی ۔ اس میں اس خطے کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ مہران ( مرکز ملتان ) ایسا خطہ ہے کہ جہاں انسان نے پہلی دفعہ اپنے دو پیروں پر کھڑا ہونا اور چلنا سیکھا ۔ جہاں تہذیب ایجاد ہوئی اور انسان کو مہذب بنانے کے عمل کا آغاز ہوا۔ کتاب میں مزید لکھا گیا کہ اس علاقے نے پوری کائنات میں سوتی کپڑا سب سے پہلے متعارف کرائے ، وزن اور پیمائش کے ایسے پیمانے ایجاد ہوئے جو بال برابر بھی فرق نہ تھا۔ نہریں بنا کے زمین سیراب کرنے اور بحری تجارت کے عمل بھی اس خطے سے شروع ہوا ۔ خطے کی تاریخ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکمران اس خطے کی قدامت کی طرف بھی توجہ دیں۔ نئی اعلان شدہ یونیورسٹیوں میں مقامی زبان و ادب کے فروغ اور مقامی آثار پر ریسرچ کیلئے شعبہ جات کا قیام ضروری ہے کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد مقامی تہذہب و ثقافت پر تحقیق ہوتا ہے۔ میں یہ بھی عرض کروں گا کہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے میری درخواست پر سرائیکی زبان و ادب کے فروغ کیلئے ادارے کی منظوری دی تھی مگر بجٹ میں رقم نہیں رکھی گئی جس کا افسوس ہے۔