چند ہفتے قبل ہمارے دوست جناب عطا اللہ خاں وٹوو صاحب کی دعوت پرترک مہمان تشریف لائے ہوئے تھے ۔ ان میں استنبول صباح الدین یونیورسٹی کے شعبہ الہیات کے ڈین اور ڈپٹی ڈین کے ساتھ مسجد اقصی کے امام شیخ عکرمہ کے ترجمان جناب عبد اللہ کہات بھی تھے اور ان کا تعلق بھی ترکی سے تھا۔ وٹو صاحب کے نیشنل لا کالج نے ان مہمانوں کے ساتھ ایک نشست رکھی ۔ یہیں عبد اللہ کہات صاحب کی وساطت سے یہ حیران کن واقعات میرے علم میں آئے ، اور میں آج انہیں آ پ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ عبد اللہ کہات صاحب نے بتایا کہ مشرقی یروشلم میں مسجدا قصیٰ کے اطراف میں مسلمان آباد ہیں اور ان کی مالی حالت شدید خراب ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ترکی سے امداد لے کر یہاں پہنچے توو ہاں ایک گھر میں گئے۔ معلوم ہوا یہاں اکثر فاقے رہتے ہیں۔ ان کی حالت دیکھ کر ہمیں ان پر رونا آ یا۔لیکن پھر ہمارے علم میں ایک ایسی بات آئی کہ ہم ان پر رشک کرنے لگے اور ان کے مقابلے میں خود کو دیکھا تو خود پر رونا آ گیا۔ عبد اللہ کہات کہنے لگے کہ ہمیں ایک مقامی دوست نے بتایا کہ جس شخص کے گھر میں ہم بیٹھے ہیں ، یہ مکان یہودی خریدنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ایک سو ملین ڈالر کی پیش کش کی جا چکی ہے لیکن اس آدمی نے اپنا گھر بیچنے سے انکار کر دیا ہے۔ اسے یہ پیش کش بھی کی گئی ہے کہ دنیا کے جس ملک میں چاہے اسے منتقل کر دیا جائے گا اور اس کے بچوں کی تعلیم اور روزگار کا بندوبست بھی کر دیا جائے گا لیکن یہ پھر بھی اپنا گھر نہیں بیچ رہا۔ عبد اللہ کہات نے اس شخص سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کو جاتے رستے پر ، مسجد اقصی سے متصل علاقے کا یہ گھر اس کے پاس اللہ کی امانت ہے ۔یہ امانت وہ کبھی نہیں بیچے گا۔ اسے ا ورا س کے بچوں کوکچھ نہیں چاہیے ، وہ اور اس کے بعد اس کی نسلیں اس گھر کی حفاظت کریں گی یہاں تک کہ کوئی آئے گا اور قبلہ اول کو آزاد کرائے گا۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس وقت کوئی کہے کہ یہ گھر مسلمانوں نے خود یہود کو بیچا تھا۔ عبد اللہ کہات نے مسجد اقصی کے سا تھ کی ایک مارکیٹ کا احوال سنایا کہ یہاں چند مسلمانوں کی ایسی دکانیں تھیں جو بالکل خالی تھیں ۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ دکانوں میں مال رکھنے کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔ بس دو چار کپڑے لٹکے ہوئے تھے۔ کہات نے اس تاجر سے پوچھا اس خالی دکان سے کتنی آمدن ہو جاتی ہے۔ اس تاجر نے بتایا کہ آمدن اور تجارت کے لیے تو نہیں بیٹھا۔ مسجد اقصی کے ساتھ کی یہ دکان مسلمانوں کی ہے اور جب تک میری نسلیں موجود ہیں یہ دکان مسلمانوں کی ہی رہے گی۔ کبھی توو قت بدلے گا اس وقت کوئی یہ نہ کہے کہ مسلمانوں نے یہ دکان خود یہود کو بیچی تھی۔ عبد اللہ کہات کہنے لگے کہ ان تاجروں کو بھاری رقم کی پیش کش کی جاتی ہے ا ور حتی کہ ان دکانوں کے بدلے مارکیٹ بنا کر دینے کی پیش کش بھی موجود ہے لیکن وہ ان کو نہیں بیچ رہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دکان اور گھر نہیں یہ مسجد اقصی کے اسلامی تشخص کے تحفظ کا مورچہ ہے اور مسلمان مرتے دم تک یہ مورچہ نہیں چھوڑ سکتا ۔ اس گفتگو کی تفصیل میں پھر کسی روز لکھوں گا سر دست یہ بتانا مقصود ہے فلسطین کا معاملہ فلسطینیوں کے لیے پلان اے ، بی ، سی اور ڈی کا معاملہ نہیں ہے۔ہم لوگ ان کا درد ان کی تکلیف نہیں سمجھ سکتے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ، ایک سو ملین ڈالر بہت بڑی رقم ہوتی ہے اور اس عالم میں جب بات فاقوں تک آ چکی ہو اس رقم کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ اتنی بھاری رقم سے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے امکانات کا ایک جہاں آباد کیا جا سکتا تھا ۔لیکن مشرقی یروشلم کے یہ مفلس اور مجبور مسلمان یہ اجتماعی عہد کیے ہوئے ہیں کہ مرتے مر جائیں گے لیکن اپنی جائیداد کسی یہودی کو نہیں بیچیں گے۔ ادھر ادھر ناجائز بستیان بن رہی ہیں ، اسرائیل زمینیں چھین رہا ہے ، ان کے سر پر بھی یہ خطرہ منڈلا رہا ہے کہ کسی روز انہیں بھی جبرا بے دخل کر دیا جائے گا لیکن جب تک یہ زندہ ہیں یہ کسی پلان بی ، سی اور ڈی کے قائل نہیں۔ یہ اور ہی دنیا کے باسی ہیں۔ ہمارے ہاں بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے خود زمینیں بیچیں تو اسرائیل قائم ہوا۔ یہ موقف نرم سے نرم الفاظ میں جہالت ہے۔ زمینوں کی خریدو فروخت یقیناہوئی لیکن اس کے دو ادوار تھے۔ ایک 1882 سے 1908 تک ہے اور دوسرا دور1908 سے 1914 تک ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں ادوار کے اختتام پر یہودیوں کے پاس فلسطین کی صرف دو اعشاریہ چھ فیصد زمین تھی۔ سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطین میں جو پہلا کمشنر تعینات کیا تھا وہ یہودی تھا اور اس کا نام ہربرٹ سیموئل تھا۔ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ زراعت اور تعلیم کے شعبے یہودیوں کے حوالے کر دیے۔ دنیا بھر سے یہودیوں کو بلا کر فلسطین میں آباد کیا جانے لگا۔ انہیں زمین کاشت کرنے کے لیے قرضے دیے گئے اور رہائش کی مد میں الائونس جاری کیے۔ ساتھ ہی ان کے لیے وظیفے بھی مقرر کیے گئے۔ انہیں پیکج دیا گیا کہ جتنی فصل وہ تیار کریں گی اس کی قیمت کے ساتھ اتنا ہی انعام پائیں گے۔ دوسری طرف عربوں پر بھاری ٹیکس عائد کر دیے گئے۔بقایا جات کی مد میں ان کی زمینیں ضبط کرنا شروع کر دیں۔ ضبط کردہ یہ زمینیں یہودیوں میں مفت تقسیم کی جانے لگیں۔یروشلم کے مضافات سے آٹھ ہزار عرب کاشتکاروں کو 50 ہزار ایکڑ زمین سے بے دخل کر دیا گیا اور بدلے میں انہیں صرف تین پائونڈ دس شیلنگ کا معاوضہ ادا کیا گیا۔ یہودی جتھے فلسطین میں آنے لگے۔ وہ مسلح تھے۔ انہیں ہر قسم کا اسلحہ رکھنے کی آزادی تھی۔ کمشنر کی جانب سے انہیں نہ صرف اسلحہ کے لائسنس دیے گئے بلکہ اسلحہ بھی فراہم کیا گیا۔ مسلمانوں کے لیے البتہ قانون مختلف تھا۔ وہ اسلحہ نہیں رکھ سکتے تھے۔حیفہ میں عرب کسانوں کو اسلحہ رکھنے کے جرم میں سزائے موت تک دی گئی۔خنجر تک رکھنے پر پابندی تھی۔ کسانوں سے زرعی آلات بر آمد کر کے کہا گیا یہ خنجر ہیں یا خنجر سے مشابہت رکھتے ہیں اور اس جرم میں انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا اور زمینیں ضبط کی گئیں۔ درانتی رکھنے کے جرم میں زمینیں ضبط کی گئی اور سزائیں سنائی گئیں ۔ جب مسئلہ فلسطین کو 1947 میں اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا تو اس ساری واردات کے باوجود عالم یہ تھا کہ فلسطین کی زمین کا صرف6 اعشاریہ 5 فیصد(چھ اعشاریہ پانچ)رقبہ یہودیوں کے قبضے میں تھا۔ لیکن اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین کا 55 فیصد علاقہ دے دیا۔ آج یہ کہنا کہ یہودیوں نے زمینیں خرید کر اسرائیل بنایا تھا، قرین انصاف نہیں ہے۔