اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بہترین لباس تقوی کو قرار دیا ہے لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم اپنے اِس خاکی بدن کو سنوارنے اور خوب سے خوب تر لباس زیب تن کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے ٹھیک ہے اچھا لباس ہونا چاہیے جب ہم کسی اعلیٰ افسر کے پا س یا پھر شادی بیاہ کی تقریب میں جاتے ہیں تو انتہائی قیمتی لباس زیب تن کر کے جاتے ہیں تا کہ دوسروں سے اعلیٰ نظر آئیں لیکن یہ سب کچھ خام خیالی ہے۔ اب ذرا آتے ہیں اللہ تعالیٰ کے اِس حکم کی طرف کہ جب تم میرے گھر میں حج یا عمرہ کرنے کے لیے آؤ تو پھر اَن سِلی ’’سفید چادریں‘‘ تمہارا لباس ہونا چاہیے یعنی احرام کی دو چادریں جو کفن کی یاد تازہ کرتی ہیں ویسے بھی ہماری یہی اصل اوقات ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اُسے کفن ہی پہنایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی ہمیں ہماری اوقات یاد دلاتے ہوئے یہی حکم دیتا ہے کہ اے انسان میرے پاس جب آنا ہو تو انہی دو سفید چادروں میں آیا کر مجھے تمہارے زرق برق لباس کی کوئی ضرورت نہیں ہے تم نے مر کر دوبارہ خاک ہونا ہے۔ اُستاد ذوق نے کیا خوب کہا تھا : مر کے خاک ہوا خاک سے پیمانہ بنا تب مجھے میسر بوسہ جاناں نہ ہوا میں مر گیا اور مر کر دوبارہ خاک بن گیا پھر میری قبر کی مٹی کو عام مٹی سمجھ کر کمبہار نے اُٹھا یا اور اُس سے مٹی کا پیالہ بنایا جام بنایا اور پھر جب میری مٹی سے بنا جام میرے محبوب کے سامنے آیا اور اُسے معلوم ہوا کہ یہ ذوق کی قبر کی مٹی سے بنا جام ہے تو اُس نے اُس پیالے میں پانی پینے سے ہی انکار کر دیا اور اپنے لبوں تک نہ لے گیا ۔ شاعرانہ تخلیق بھی عجب ہوتی ہے شعر اء کرام بعض اوقات انسان کی اصلیت کو بہت ہی خوب صورت طریقے سے بیان کر جاتے ہیں ۔ ہم نے بھی سعودی ائیر لائن کے اندر مقیات آنے سے 20 منٹ قبل احرام باندھا اور ائیر لائن کے اندر بنائی گئی چھوٹی سی مسجد میں نوفل ادا کئے۔ یوسف بھائی جو کہ سال میں ایک مرتبہ لازمی عمرہ کی ادائیگی کرتے ہیں اور وہ بھی سعودی ائیر لائن سے۔ تو اُنہوں نے سعودی ائیر لائن کے بارے میں ہمیں سب کچھ بتا دیا کہ آپ کو تمام سہولتیں ائیر لائن کے اندر مل جائیں گی۔ احرام باندھتے ہی دنیا بدل گئی ۔ احرام باندھتے ہی اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا نزول شروع ہو گیا پورے جہاز میں لبیک الھم لبیک اور تیسرے کلمے کا ورد شروع ہو گیا ہمارا طیارہ ملتان سے کراچی اور پھر کراچی کی فضاؤں سے بحیرہ عرب سمندر کے اوپر اُڑتا رہا فضائی راستے میں عمان ، مسقط ، دوبئی اور پھر راسل خیمہ سے جہاز کا رُخ مجاز مقدس کی طرف موڑ گیا۔ راسل خیمہ متحدہ عرب امارات کی ایک ریا ست ہے یہاں سے پونے دو گھنٹوں میں جدہ ائیر پورٹ پر جہاز لینڈ کرتا ہے اور پھر جدہ سے سیدھا مکہ مکرمہ ساڑھے چار گھنٹوں بعد اعلان ہوا کہ اب ہم شاہ عبدالعزیز ائیر پورٹ پر لینڈ کرنے والے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز نیا ائیر پورٹ بنایا گیا ہے جب کہ اِس سے قبل پرانا ائیر پورٹ جواب بھی فعال ہے جہاں پر حاجی کیمپ بھی بنایا گیا ہے جبکہ پی آئی اے اور دیگر ممالک کے جہاز وہیں پر لینڈ کرتے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز ائیر پورٹ سعودی ائیر لائن کا مسکن ہے ۔ شاہ عبدالعزیز ائیر پورٹ تمام جدید سہولتوں سے آراستہ ہے جس طرح ہمیں ملتان ائیر پورٹ پر مشکلات کا سامنا رہا اُس کا ازالہ شاہ عبدالعزیز ائیر پورٹ پر ہو گیا یہ اور بات ہے کہ ہمارے بہت ہی پیارے دوست مہتاب احمد خان نے جو ہدایات ہمیں ائیر پورٹ سے نکلنے کے لیے دی تھیں اور ہمیں جس جگہ وہ لینے کے لیے آئے تھے اُس جگہ سے ہم بہت دور نکل گئے۔ مہتاب میاں پہلے ائیر پورٹ کے اندر ہمارا انتظار کرتے رہے تھے ہم سامان اور بورڈنگ کے مسائل کاشکار رہے لیکن ہم جونہی سامان لے کر ائیر پورٹ سے باہر نکلے تو مہتاب میاں نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے لیے ائیر پورٹ کی مسجد کا رُخ کیا اور یوں ہم اُن سے بچھڑ گئے لیکن قدرت نے خصوصی مہربانی فرمائی اور کچھ دیر بعد مہتاب میاں سے رابطہ ہوا اور یوں وہ ہمیں لینے کے لیے پہنچ گئے لیکن اُس وقت تک وہ غصے میں آچکے تھے کہ جب میں نے آپ کو ایک جگہ ٹھہرانے کا کہا تو آپ وہاں کیوں نہیں روکے اُن کے اِس محبت بھرے غصے کا انداز میں بھی خلوص اور بے لوث پن تھا ۔ جو مہتاب میاں کی شخصیت کا ایک خوب صورت پہلو ہے کہ ہماری طرح بظاہر غصہ لیکن اندر من کے اُجلے اور صاف گو یہ مومن کی نشانی ہے۔ حضور اقدس ؐ کا فرمان مبارک ہے کہ جس شخص کو غصہ بہت جلدی آئے اور بہت جلد چلا جائے یہ بھی بہتر ہے اور پھر فرمایا کہ جس آدمی کو غصہ دیرسے آئے اور جلدی ختم ہو جائے تو یہ بہت اچھا آدمی ہے اور پھر فرمایا کہ جس شخص کو غصہ آئے بہت جلد اور ختم بہت دیر بعد ہو یعنی انتقام والا شخص ہو تو یہ ہرگز بہتر نہیں ہے۔ بہر حال جدہ سے مہتاب میاں کے ساتھ کار میں مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے اور پھر مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہی مہتاب میاں نے ہماری کیفیت دیکھتے ہوئے ہمیں ایک بہت ہی بہترین ہوٹل پر لے کر گئے اور سعودی عرب کا مشہور مصروف البیک کا کھانا کھلایا ۔11 بجے شب ہم اپنے ہوٹل پر پہنچے اور وہاں کمرہ لیا اور احرام باندھے ہی سو گئے چونکہ اتنی زیادہ تھکاوٹ میں فوری عمرہ کرنے کا مزہ نہ آتا لہٰذا صبح ہوتے ہی حرم پاک عمرہ کے لیے روانہ ہو ئے ۔ (جاری ہے )