کس نے سیکھا ہے نقش پا رکھنا پیر اٹھایا تو آ گیا رکھنا پانیوں پر بہار اترے گی ایک چہرہ وہاں بنا رکھنا بات تو ساری توکل اور حوصلے کی ہے۔وقت روکے تو میرے ہاتھوں پر اپنے بجھتے چراغ لا رکھنا۔ دل ہے شیشہ تو ٹوٹنا ہے اسے۔ اس میں پتھر کا ذائقہ رکھنا۔ آج تو اس کے علاوہ کیا بات کی جائے کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دے دیا ہے اور جواباً پی ٹی آئی والے ملک بھر میں مظاہرے کر رہے ہیں۔توشہ خانہ ریفرنس کا یہ فیصلہ غیر متوقع تو ہرگز نہیں پھر بھی امکان تھا کہ شاید کوئی جرمانہ وغیرہ کر کے حالات کو خراب ہونے سے بچا لیا جائے گا مگر مسئلہ تو اور بھی سنگین یوں ہو گیا کہ الیکشن کمشن کے بقول چیئرمین پی ٹی آئی نے جھوٹا بیان حلفی جمع کروایا۔وہ اس کی پاداش میںکرپٹ پریکٹسز کے مرتکب ہوئے فوجداری کارروائی کا بھی کہہ دیا گیا۔ بات یوں ہے کہ اب عمران خاں کا امتحان شروع ہو چکا ہے کہ سیاست ختم ہو گئی یا اب شروع ہو گی عمل اور ردعمل کا قانون بھی اپنی جگہ مگر قانون کے حوالے سے اب عدالتوں کا رول بھی تو ہو گا۔ایسے لگتا ہے کہ عمران اس نتیجے سے اچھی طرح با خبر تھے اور وہ سیاسی پریشر بڑھا رہے تھے۔مگر یہاں بات بنا لی گئی۔ ظاہر ہے پی ٹی آئی یہ فیصلہ چیلنج کرنے جا رہی ہے اور وہ پر امید ہیں کہ یہ سزا معطل ہو جائے گی شاید یہ اتنا ہی آسان ہو اس وقت تو یقین سا ہونے لگا تھا جب شاہ محمود قریشی اس حوالے سے فرما رہے تھے وہ نہایت زیرک سیاستدان ہیں اور وہ اس آنے والے نتیجہ سے باخبر تھے اور ایک عرصہ سے ان کے حوالے سے لکھنے پڑھنے والوں کی ایک رائے بن چکی ہے کہ جب بھی خان صاحب ادھر ادھر ہوئے تو شاید صاحب ہی رہ جائیں گے: چراغ آخر شب اس قدر اداس نہ ہو تمہارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے تصرف میں نے جان بوجھ کر گیا ظہیر کاشمیری نے ہمارے لکھا تھا ن لیگ والے پتہ نہیں کیوں خوشیاں منا رہے ہیں ان کی کارکردگی پر تو انہیں شرمندہ ہونا چاہیے۔ ویسے بھی ابھی کھیل ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہوا ہے میں پی ٹی آئی کی سپورٹ نہیں کر رہا حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ تاہم ن لیگ کے لئے ایک آسودگی اس بات پر ضرور ہے کہ فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا ہے کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ ظاہر کب سے اس کا انتظار تھا اور پاکستان کو ترسایا جا رہا تھا اب عالمی سطح پر ملکی ساکھ اور وقار بحال ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے قوم کو مبارکباد دی ہے پاکستان نے 35سفارشات پر عمل کیا ہے لیکن مانیٹرنگ جاری رہے گی یعنی اپنے آپ کو آزاد مت سمجھ لینا بلکہ کارکردگی دکھائو اور عالمی غنڈوں کو خوش رکھو ہم بھی کیا ہیں بس! کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشہ بنا دیا معاملات بگڑتے نظر آ رہے ہیں کہ رانا ثناء اللہ نے عمران کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کا اعلان کر دیا ہے ظاہر ہے سرخ رومال دکھانے کے مترادف ہے یا پھریہ تکنیک ہے کہ دشمن کو سبھلنے کا موقع نہ دیا جائے۔ پی ٹی آئی والوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ ساری اعصاب کی جنگ بھی ہے۔ دن چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں اور راتیں لمبی وہی کہ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔ بہرحال کئی دلچسپ پوسٹیں بھی لگ رہی ہیں ہمارے ستار چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ عمران خان صاحب موجودہ اسمبلی کی مدت سے نااہل ہوئے ہیں جسے وہ پہلے ہی دھتکار چکے ہیں کوئی بات نہیں! مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو کوئی یہ بھی تو کہہ سکتا ہے کہ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے اور تو اور عثمان ڈار بھی فرما رہے ہیں کہ عمران خاں کی نااہلی ہمارے لئے سرپرائز نہیں۔وہ اکثر سیالکوٹی لہجے میں بولتے ہیں ۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں عبیر ابوزری یاد آئے پراں سے پراں پراں اور بھی ہیں۔کوئی محترم سراج الحق کی بات بھی سن لے کہ عمران کی نااہلی تاریخی سبق ہے اور سیاسی بحران کا حل صرف ڈائیلاگ یہ بڑی گہری بات ہے کہ سیاستدان اکٹھے مل کر نہیں بیٹھیں گے تو ایک دوسرے کی نااہلی پر بغلیں بجاتے رہیں گے ویسے یہ نااہل تو ہیں کیا خیال ایک بات تو طے ہے کہ توشہ خانہ سے کون مستفید نہیں ہوا؟ ۔ کیا یہ تماشہ نہیں کہ جب تبدیلی آنا ہوتی ہے تو بس ایک بہانہ ہی بنتا ہے یا بنا لیا جاتا ہے ہارون رشید صاحب نے درست کہا کہ کیا توشہ خانہ میں صرف ایک گھڑی تھی: آئینہ تھا اس لئے رہتا کہاں میں تو ہوں اب ٹوٹ کر بکھرا ہوا ایسے ہی اپنے مرحوم دوست ریاض الرحمن ساغر کا ایک شعر یاد آ گیا جو ایک نغمے کا مکھڑا بھی تھا آپ اسے ہمارے حالات کے تناظر میں دیکھیں: کس منہ سے تیرا نام لوں دنیا کے سامنے آئے گا کون ریت کی دیوار تھامنے بات گہری ہے کہ حالات کو سنبھالنے والے اب خود سمبھلنے کی کوشش میں مصروف ہیں میں تو بارہا لکھ چکا ہوں کہ نواز شریف اگر خود کو پاکستان کا خیر خواہ جانتے ہیں تو پھر وہ سب کچھ اس مٹی سے وابستہ کریں اپنی عیدیں شبراتیں یہاں منائیں لیڈر بہادر ہوتا ہے اور اپنے لوگوں کے درمیان زندگی گزارتا ہے اسی حوالے سے میں عمران خاں کے اچھے یا برے ہونے کا کچھ نہیں کہہ سکتا مگر وہ اپنے چاہنے والوں کے درمیان میں تو ہے جاوید قاسم کا ایک شعر: سحر کو ایسے شب غم میں معتبر رکھا دیے کا نام بھی سورج کے نام پر رکھا