اپریل لاطینی زبان کے لفظ Aprillis یا Aprire سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے پھولوں کا کھلنا ، کونپلیں پھوٹنا ، قدیم رومی قوم موسم بہار کی آمد پر دیوتا کی پرستش کرتی اور لوگ یکم اپریل کو دیوتا کو خوش کرنے کے لیے اُوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے اور لوگ جھوٹ کا سہارا لیتے، آہستہ آہستہ یہ اپریل فول بن گیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز 1508ء سے ہوا اور برطانیہ میں 18 ویں صدی میں اس کا رواج عام ہو گیا۔ اپریل فول کی وجہ سے دنیا میں بہت سے حادثات رونما ہو چکے ہیں، جھوٹی خبروں سے بہت سے لوگ ہارٹ فیل ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے، اس کے علاوہ بہت سے لوگوں کو کاروباری و تجارتی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے سب سے بڑا نقصان اخلاقی گراوٹ کا ہے جس سے نفرت ضروری ہے۔ یکم اپریل کو اگر کوئی آپ کو خبر دے تو آپ پہلے اس کی تصدیق کر لیں کہ کیا وہ خبر سچی ہے یا جھوٹی ، آپ کو فول تو نہیں بنایا جا رہا ہے۔ اپریل فول کے پیچھے کچھ ایسے تلخ تاریخی واقعات چھپے ہیں جس سے آج کی نوجوان نسل ناآشنا ہے، کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں پہلی مرتبہ اپریل فول انگریزوں نے بہادر شاہ ظفرسے منایا، اپریل فول کے موقع پرانگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ایسا دردناک مذاق کیا جسے تاریخ میں کبھی بھلایا نہ جا سکے گا،بہادر شاہ ظفر انگریزوں کی قید میں تھے،صبح ناشتہ میں ایک بڑا تھال جسے ریشمی کپڑے سے ڈھانپا گیا تھا،پیش کرتے ہوئے کہا ’’یہ لو تمہارا ناشتہ آ گیا ہے۔‘‘ بہادر شاہ ظفر نے تھال لے کر اس سے کپڑا ہٹایا تو اس پر سکتہ طاری ہوگیا کیونکہ تھال میں اس کے بیٹے کا سر پیش کیا گیا تھا۔یہ منظر دیکھ کر بہادر شاہ ظفر غم سے بے ہوش ہوگیا دراصل انگریزوں نے ناشتہ میں کھانے کی بجائے بہادر شاہ ظفر کو اس کے بیٹے کا سر دے کراس سے اپریل فول کا مذاق بنایا تھا۔ مغربی ملکوں کے ظلم و ستم سے چھٹکارے کے لیے سب سے پہلے اس کے جھوٹ کو مسترد کرنا ضروری ہے۔ سرائیکی وسیب کی سرائیکی جماعتوں اور مختلف تنظیموں کی طرف سے ہر سال یکم اپریل کو اپریل پھول کے طور پر منایا جاتا ہے، مغربی ممالک میں یہ دن اپریل فول یعنی جھوٹ کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ وسیب میں اس دن کو سچائی کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے، اس کا ایک مقصد جھوٹ سے نفرت اور سچ سے محبت ہے۔ اس دن وسیب کے لوگ دریائوں میں گل پاشی کرتے ہیںاور دریا میں گندگی کی بجائے پھولوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، اس ایونٹ کو نہ صرف قومی سطح پر پذیرائی ملی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اسے سراہا گیا ہے۔ دریائوں میں پھول ڈالنے کی روایت صدیوں پرانی ہے، اس رسم کا مقصد دریائوں سے محبت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ دریا اور اس کے پانی کو صاف ستھرا رکھا جائے اور اُسے گندگی سے بچایا جائے کہ زندگی کا نام پانی اور پانی کا نام زندگی ہے۔ دریائے راوی دنیا کا گندا ترین دریا بن چکا ہے، حکمرانوں نے دریائے راوی جو دراصل خشک دریا ہے اور سندھ طاس معاہدے کے بعد اس کا پانی بھارت کو چلا گیا، اس میں جو معمولی پانی آتا ہے اسے بھی زہر بنا دیا ہے، اسی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ دریائوں کی آلودگی قومی نہیں عالمی مسئلہ ہے۔ دریائوں میں پھول ڈالنا ایک علامت ہے اور ایک پیغام ہے کہ دریائوں میں گند گی نہ ڈالیں بلکہ ان کو صاف رکھیں، کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ دنیا بھر کے 25 فیصد سے زائد دریائوں میں جہاں ادویات کے زہریلے کیمیکلز کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے وہاں پاکستان کے چاروں بڑے دریائوں راوی، چناب، سندھ اور کابل سمیت راولپنڈی اسلام آباد کا دریائے سواں بھی آلودگی کے شکار ہیں جن میں زہریلے عناصر پائے گئے جو شہریوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ نباتات اور حیوانات کو بھی بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔ آلودہ پانی سے ہیپا ٹا ئٹس، جلد اور پیٹ کی بیماریاں پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ اگر کسی کو بیماریوں کے بارے میں یقین نہ آئے تو وہ وسیب کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ یہاں آلودہ اور زہریلے پانی کی وجہ سے لوگ کن کن بیماریوں کا شکار ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ وسیب میں تفریح گاہیں، پارک، کھیلوں کے گرائونڈ ویران ہو چکے ہیں جبکہ ہسپتال آباد ہیں اور پرائیویٹ ڈاکٹر سسکتی انسانیت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے دریا اور نہریں گندگی، آلائش اور آلودگی کا منظر پیش کر رہی ہیں اور بدبو ایسی کہ جیسے یہ کوئی گندگی کی ذخیرہ گاہیں ہیں، دریائوں میں گندگی نظر آنا صرف بدنما منظر نہیں بلکہ یہ ممکنہ طور پر ہمارے پینے کے پانی کی تباہی اور فطری حیات کی زندگیوں کو لاحق خطرات کا بھی آئینہ دار ہے۔ یہ معاملہ اتنا سنجیدہ، حساس اور پیچیدہ ہے کہ کسی گلی میں پھینکا جانے والا کچرہ بھی بالآخر دریائوں اور نہروں میں پہنچنے والے کوڑاکرکٹ کا حصہ بنتا ہے۔ حکومتی ادارے صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔ میں پھر کہوں گا کہ عوام کو خود دریائوں کو آلودگی سے بچانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وسیب میں نوے فیصد بیماریوں کا تعلق آلودہ پانی سے ہے، زیر زمین پانی میں آرسینک کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور دریائوں سے جو پانی نہروں میں آ رہا ہے وہ بھی آلودہ ہے۔ شہروں، قصبوں اور دیہات میں قریب تمام انسانی آبادی دریائوں کے پانی پر انحصار کرتی ہے، اگر ہمارے دریا آلودہ رہے تو پھر پانی کبھی اتنا صاف نہیں ہو پائے گا کہ اسے انسانی ضروریات کے لیے استعمال کیا جا سکے، اس لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے دریائوں کی حفاظت کریں اور انہیں آلودگی سے بچائیں۔