یہ فہم بھی کیا چیز ہے کہ اکثر دھوکہ بھی دیتا ہے کبھی محرم کو مجرم اور کبھی دعا کو دغا بنا دیتا ہے تبھی تو کہتے ہیں کہ سخن فہمی اصل میں فہم کا امتحان ہے اسی واسطے کچھ نہ کچھ افہام و تفہیم کی ضرورت پڑتی ہے آمدم برسر مطلب کہ میرا ایک شعر پوسٹ پر لگا: خود مصنف نے اسے لاکے کہیں مار دیا ایک کردار جو کردار سے آگے نکلا اس پر بڑے کمنٹس آئے۔ ایک کمنٹ کسی عروضی کا تھا اس نے شعر کا لطف اٹھانے کی بجائے لکھا کہ وزن کی مجبوری آڑے آ گئی وگرنہ میں مصنف کو منصف پڑھتا۔ گویا کہ میں نے مصنف کا لفظ مجبوراً استعمال کیا ہے وگرنہ یہاں محل منصف کا تھا۔ میں نے لکھا نہیں بھائی‘ایسا نہیں ہے یہ لفظ مصنف ہے جو ہمیں محبت نامہ لکھ کر بھیجتا ہے ‘ ہمیں انسٹرکشن دیتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ لکھنے والا مصنف ہی ہوتا ہے منصف نہیں۔ منصف تو ایسا فیصلہ لکھتا ہے’’منصف وقت مجھے قول کا پکا لکھنا۔‘‘ مجھے کرشن چندر یاد آیا کہ ایک مرتبہ اس نے کہا تھا کہ اسے جس کو بھی قتل کرنا یا مارنا ہوتا ہے اسے وہ اپنی کہانی کے پلاٹ کا حصہ بنا کر کہیں مار دیتا ہے چنانچہ اب تک وہ چار سو چونسٹھ لوگ مار چکا ہے۔ اگر وہ کردار مرنے کے باوجود بھی زندہ ہیں اور چل پھر رہے ہیں تو یہ ان کی قوت ارادی کے باعث ایسا ممکن ہواہے۔ ویسے ہم محاورتاً بھی کہتے‘ یار تم نے تو مار ہی دیا ہے۔ غالب نے بھی کہا تھا کہ اسے بھی ایک ڈومنی نے مار رکھاہے ’’میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں۔‘‘ میں محبت کو زندگی سمجھا اس محبت نے مار ڈالا مجھے بات سے بات نکلتی جا رہی ہے تو کیا کیا جائے۔ اس شعر کا پس منظر مجھے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں نے یہ غزل بے نظیر کی شہادت پہ لکھی تھی۔ اس کی کچھ زیادہ ہی پذیرائی ہوئی کہ اہل دانش اور اہل سیاست اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس شعر کا مفہوم کیا ہے‘ خاص طور پر کردار سے آگے نکلنے کا کیا مطلب ہے۔ ہمارے لیڈروں کی ساری سرگرمیاں سکرپٹ کے تحت ہی ہوتی ہیں۔ سکرپٹ کو فالو نہ کیا جائے تو ڈرامے کا بیڑہ غرق ہو سکتا ہے ۔ لفظ اپنے ماحول میں اپنے معنی دیتے ہیں یہ المیہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر جیتنے اور ہارنے والے گھوڑوں کے پیچھے ایک ہی شخص ہوتا ہے۔ گھوڑا جو بھی جیتے اسے آنا اسی کے اصطبل میں ہے۔ گھوڑوں سے بات چلی تو مقامی گھوڑوں تک بھی آئے گی۔ کیسے ان کو کبھی چھانگا مانگا اور کبھی بھوربن لے جا کر بند کیا گیا کہ کہیں دوسری طرف ووٹ ڈالنے پر ٹریپ نہ ہو جائیں۔ مجھے یہاں ایک دلچسپ بات یاد آئی کہ خضر یاسین صاحب گھوڑوں کی بریڈ پر بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ گھوڑے اور گدھے کی کراس بریڈ یعنی دونوں کی متفقہ نسل خچر کہلاتی ہے۔ پھر کہنے لگے کہ حیرت ناک بات یہ کہ خچر دونوں سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ لیبر کے لئے سب سے زیادہ موزوں خچر ہی ہے۔ میں نے بے ساختہ کہا کہ ’’کیونکہ خچر کے اندر گھوڑے کی طاقت اور گدھے کا صبر ہوتا ہے۔‘‘ ایک مرتبہ عجیب واقعہ ہوا کہ میں چیئرنگ کراس سے گزر رہا تھا کہ دیکھتا ہوں وہاں گدھوں سے کچی مٹی ان لوڈ کی جا رہی تھی۔ پہلے تو میں گدھے دیکھ کر حیران ہوا کہ انہیں ادھر آنے یا لانے کی اجازت کیسے مل گئی۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک ٹھاہ کی آواز آئی۔ غالباً کوئی ٹائر پھٹا ہو گا۔ ٹھاہ کا ہونا تھا کہ گدھے بدک گئے۔ دوچار اسمبلی کی طرف بھاگے اور کچھ گورنر ہائوس کی جانب اور کچھ نے بیچ مال روڈ بلاک کر دی۔ سارجنٹ بے بس نظر آ رہے تھے۔ اب کمہار کا وہ چالان تو نہیں کر سکتے تھے اور لوگ اس پر ہنس رہے تھے۔ بتانا تو میں یہ چاہتا تھا کہ انسان کا فہم بعض اوقات اسے دھوکہ دے جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے فہم ٹھیک ہو مگر دوسرا شخص آپ کو دھوکہ دے جاتے جیسا کہ عید قربان پر بعض مرتبہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی طرف سے تو بکرے خریدتے ہیں مگر گھر آ کر پتہ چلتا ہے کہ بیوپاری نے نہایت چالاکی اور چابکدستی سے آپ کی گاڑی میں بھیڑیں چڑھا دی تھیں۔ کچھ یوں بھی ہوتا ہے کہ بکرے آ گئے تو ایک بکرے کا سینگ الفی کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔ بات یوں ہے کہ یہاں بہت ہی ہوشیاری اور حاضری دماغی سے رہنا پڑتا ہے ادھر آپ کی نظر ادھر ہوئی اور ادھر کام ہو گیا۔ مجھے یاد آیا کہ کہیں اکبر الہ آبادی کا ایک شعر پڑھا تھا جو یقینا انہوں نے ماڈرن لڑکے اور لڑکی کو دیکھ کر کہا تھا آپ کو سمجھانے کے لئے ایک مصرع ہی کافی ہے۔ ’’دونوں نے خاک ڈال دی دیدہ امتیاز میں‘‘ ساتھ ہی مجھے پروفیسر ڈاکٹر صاحب یاد آ رہے ہیں جنہوں نے میر کا ایک شعر کلاس روم میں بچوں کو سمجھایا۔ پہلے شعر دیکھ لیں: اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا لو ہو آتا ہے جب نہیں آتا پروفیسر صاحب نے بچوں سے کہا’’کیا سمجھے اجمل نہیں آتا تو اکمل آتا ہے‘ اکمل نہیں آتا تو اجمل آتا ہے‘‘ یعنی ایک چیز آتی ہے تو دوسری نہیں آتی‘ دوسری آتی ہے تو پہلی نہیں آتی۔ لڑکے ہونقوں کی طرح تشریح سنتے رہے۔ ادب آداب مانع تھے۔ یہ راز تب کھلا کہ ایک بچے نے یہ تشریح کسی اور استاد کو سنائی۔ سب سے آخر میں مودی کے فہم کو ذہن میں لائیے کہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان کو مٹا دے گا جبکہ یہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لئے وجود میں آیا ہے۔پاکستان کو چیونٹی سمجھ کر مسلنا چاہتا ہے لگتا ہے بدمست ہاتھی کی موت آئی ہے۔