لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) تجزیہ کارعامرمتین نے کہا ہے کہ 80 اور90 کی دہائی میں ایک کسانوں کی لابی ہوتی تھی جوروز اسمبلی میں کھڑی ہوکر کسانوں کی بات کرتی تھی، ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیہات میں غربت کی لکیر 80فیصد تک پہنچ چکی ہے کیونکہ دیہات میں آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے اوروہاں پر کوئی کاروبارنہیں۔پروگرام مقابل میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا فیصل آبادمیں وکلا کی ہلڑ بازی اور تشدد انتہائی شرم ناک ہے ، چیف جسٹس اگرچہ بہت سخت ہیں لیکن جب وکلا کے خلاف اقدام کرنے کی بات آتی ہے تو ان کے پائوں جل جاتے ہیں، پڑھے لکھے اس طبقے کو شرم نہیں آتی، ان کامطالبہ اگرچہ درست ہے لیکن عدالتوں میں توڑ پھوڑ سے کیا پیغام دیناچاہتے ہیں اورڈپٹی کمشنر کوبھی وکلا نے تشدد کانشانہ بنایا، کرسیاں توڑی گئیں اور تالا بندی کی گئی،نوازشریف نے العزیزیہ ریفرنس میں 44 سوالات کے جواب دیئے ہیں جبکہ انہوں نے پارلیمنٹ سے خطاب پر استثنیٰ مانگاہے ، افغانستان میں قتل کئے جانے والے ایس پی کے بارے میں حکومت کوچاہئے کہ وہ سچ بتائے ۔تجزیہ کاررئوف کلاسرا نے کہا جو بھی پارٹی آتی ہے وہ کسانوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے کی با ت کی ہے لیکن عملی طورپر ایسا نہیں ہوتا،نواز حکومت نے کسانوں کیلئے فصلوں کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا، صرف پیپلزپارٹی نے گندم کی سپورٹ پرائس بڑھائی ، اب ای سی سی میں سمری لائی گئی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ایک کسان کی ایک من گندم اگانے پر 1284 روپے لاگت ہے جبکہ سپورٹ پرائس 1300 روپے ہے ، کسان کوصرف فی من 16 روپے منافع ملتاہے ۔ انہوں نے کہا ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے بلوچستان پاکستان کا غریب ترین صوبہ ہے حالانکہ اس صوبے میں دنیا کی تمام معدنی دولت ہے ۔