لیبیا میں صدرمعمر قذافی کی حکومت ختم ہوئے آٹھ برس ہوگئے لیکن یہ ملک آج تک بدامنی‘ خانہ جنگی کا شکار ہے ۔داخلی جنگ و جدل میں اب تک دو ہزار افراد ہلاک ‘ لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ یہ ملک انسانی اسمگلنگ کا مرکز بن چکا ہے۔بعض علاقوں میں عورتیں بازاروں میں فروخت کی جاتی ہیں۔یہ وہ تحفہ ہے جو امریکہ اور یورپ نے آمریت سے نجات اور جمہوریت کے قیا م کے نام پرلیبیا کی عوام کودیا ۔صدر قذافی نے شمالی افریقہ میں واقع اس ملک کے مختلف قبائل کو اپنے ایک مخصوص نیم آمرانہ نظام حکومت کے ذریعے متحد کیا ہوا تھا۔ امریکہ کو راضی کرنے کی خاطر قذافی نے ایٹمی پروگرام بھی ترک کردیا تھا لیکن پھر بھی امریکہ نے اُن کے خلاف بغاوت کی سرپرستی کی‘ لیبیا پرنیٹو افواج سے حملہ کروایا۔ برطانیہ اور فرانس نے امریکہ کی مدد کی۔ صدرقذافی کی حکومت ختم ہوگئی جنہیں بعد میںباغیوں نے بے رحمی سے قتل کردیا۔صدر قذافی کے جانے کے بعد لیبیا کو جمہوریت تو نہ ملی جس کے سبز باغ دکھا کربغاوت کو ہوا دی گئی تھی البتہ وہاں کے پینسٹھ لاکھ عوام اُس امن و خوشحالی سے بھی محروم ہوگئے جو قذافی کے زمانے میں اُنہیں حاصل تھی۔ اس وقت لیبیا دو حصّوں میں منقسم ہے۔ اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت لیبیا کے شمال مغرب میں واقع دارالحکومت طرابلس اور اسکے نواح تک محدود ہے۔باقی اسیّ فیصد لیبیا میں جنرل خلیفہ ہفتر کی حکومت ہے جسکا ہیڈکوارٹر لیبیا کے شمال مشرقی شہر تبوک میں واقع ہے جہاںایک نام نہاد منتخب پارلیمنٹ بھی موجود ہے۔چھ سات سے زیاد ہ بڑے ممالک لیبیا کی خانہ جنگی میں کسی نہ کسی فریق کا ساتھ دے رہے ہیں‘اسلحہ اور کرائے کے سپاہی بھیج رہے ہیں۔ روس اور فرانس جنرل ہفتر کے ساتھ ہیں جبکہ اٹلی اور ترکی طرابلس کی محصور حکومت کی مدد کررہے ہیں۔ شمالی افریقہ میں واقع لیبیا میں بیرونی دلچسپی اور مداخلت کی ایک بڑی وجہ اس کی جغرافیائی اہمیت ہے۔اس کا محل وقوع تزویراتی (اسٹریٹجک)اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ لیبیا کے شمال میںمشرقی بحیرہ ٔروم کے ساتھ اسکا اٹھارہ سو کلومیٹر طویل ساحل ہے ۔ سمندر کے دوسری طرف یورپ ہے۔ لیبیا کے مشرقی شمال میں واقع بن غازی اورراس لانوف جبکہ وسطی شمال میں سرت اور مغربی شمال میں طرابلس کی بندرگاہیںبین الاقوامی سیاست میں اہمیت رکھتی ہیں۔ فرانس‘ روس اور ترکی کی نگاہیں لیبیا کی بندرگاہوں پر ہیں جہاں اگر اِن کے قدم جم جائیں تو وہ مشرقی بحیرۂ روم کی عالمی سیاست میں اہم کردار اداکرسکتے ہیں۔ صدر قذافی کے زمانے میں روس لیبیا کا قریبی اتحادی تھا۔ روس دوبارہ وہاں قدم جمانے کے لیے کوشاں ہے تاکہ وہ اس علاقہ میں نیٹو کے مقابلہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکے۔ قریبی ملک شام میں وہ پہلے سے موجود ہے۔ روس کُھل کر جنرل ہفتر کا ساتھ دے رہا ہے۔اس کے برعکس ترکی طرابلس کی حکومت کے ساتھ ہے۔ حال ہی میں ترکی نے طرابلس کی مدد کے لیے اپنے فوجی دستے بھیجنے کا اعلان بھی کردیا ہے کیونکہ ہفتراسے فتح کرنے کے لیے بار بار حملے کررہا ہے۔ ترکی کی مخالفت میں اور اس کے پھیلتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے سعودی عرب ‘ مصراور متحدہ عرب امارات بھی جنرل ہفتر کا ساتھ دے رہے ہیں۔مصر کے جنرل سیسی یہ سمجھتے ہیں کہ لیبیا میں اس وقت القاعدہ اور داعش ایسے شدت پسند مسلح گروپ سرگرم ہیںانہیں صرف ہفتر ایسا طاقتور حکمران ہی کچل سکتا ہے۔ فرانس بھی اسی خیال کا حامی ہے۔یُوں دیکھا جائے تو ہر اعتبار سے جنرل ہفتر کو زیادہ ملکوں کی حمایت اور مددحاصل ہے‘ اسکی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے۔ اس کے راستے کی بڑی رکاوٹ صرف ترکی ہے۔ شمالی افریقہ میں تیل کے سب سے بڑے ثابت شدہ ذخائرلیبیا میں پائے جاتے ہیں۔موجودہ ذخائرسے اگلے ستّر برس تک تیل نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے پاس قدرتی گیس کے بھی وسیع ذخائر ہیں۔ گزشتہ سال لیبیا نے بیس ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا تیل برآمد کیا۔ صدر قذافی کے دور میں روسی کمپنی روزنیٹ کے پاس لیبیا میں تیل نکالنے ‘ بیچنے کے بڑے ٹھیکے تھے جو ان کے جانے کے بعد ختم ہوگئے۔ اب روس کے ساتھ ساتھ فرانس‘ اٹلی‘ ترکی کی للچائی نظریں بھی لیبیا کے تیل کے ذخائرپر ہیں۔ لیبیا کی ایک اور کشش تعمیرات کے ٹھیکے اور سرمایہ کاری کے مواقع ہیں۔ نیٹو کے حملوں اور بعد میں خانہ جنگی سے جو تباہی مچی اس کے بعد لیبیا میںسڑکوں ‘ عمارات وغیرہ کی تعمیر نوکی ضرورت ہے۔یہ اربوں ڈالر کے ٹھیکے ہیں جن کے حصول کے لیے مختلف ملکوں کی رالیںٹپک رہی ہیں۔ روس لیبیا میں ریلوے لائن بھی بچھانا چاہتا ہے۔ طرابلس کی حکومت چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کا حصّہ بننے کا اعلان کرچکی ہے۔ قطر لیبیا میں سرمایہ کاری کے مواقع دیکھ رہا ہے لیکن اسکے مخالف عرب ممالک نہیں چاہتے کہ قطر وہاں داخل ہو۔ یورپ کے لیے لیبیا اِس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ یہ افریقہ کے لوگوں کے لیے یورپ میں داخل ہونے کے ایک بڑے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ افریقہ سے غیرقانونی طور پریورپ جانے والے لیبیا کے راستے ہی سمندر پار کرکے اٹلی پہنچتے ہیں جہاں سے یورپ کے دیگر ملکوں میں پھیل جاتے ہیں۔ جرمنی اور اٹلی کی بڑی تشویش یہ ہے کہ لیبیا میں خانہ جنگی بندنہ ہوئی تووہاں سے نقل مکانی کرنے والے اور افریقہ سے بذریعہ لیبیا یورپ پہنچنے والے لوگ اِن ملکوں کے لیے بڑے مسائل کا سبب بنیں گے ۔یہ ممالک پہلے ہی شامی مہاجرین سے پریشان ہیں۔ اسی لیے جرمنی لیبیا میں خانہ جنگی رُکوانے کے لیے مذاکراتی عمل میں پیش پیش ہے۔لیبیا میں خانہ جنگی رکنے کا انحصار زیادہ تر اس بات پر ہے کہ جنرل ہفترطرابلس کی فتح کا ارادہ ترک کردے اور اس بات پر رضا مندہوجائے کہ جو فریق جہاں ہے وہاںتک محدود رہے۔ تاہم مکمل امن کا قیام اورلیبیا کے ایک ملک کے طور پر یکجا ہونے کا عمل مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔