آنکھ کو اک جہان دے کر رنگ پھینکے زبان دے کر اس کو کچھ تو بنا دیا ہے ہم نے تھوڑا سا دھیان دے کر دھیان دینا اگرچہ اختیاری فعل ہے مگر کسی کی کشش تو ہے جو دل کو بے اختیار کرتی ہے ۔کون نہیں چاہتا کہ وہ اپنی زندگی میں رنگ بھرے چاہتا ہوں یہ دنیا زد میں، خواہشوں کو کمان دے کر لیکن سعد ڈرتا ہوں جل نہ جائوں خود کو اتنی اڑان دے کر۔ ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا شاہ جی پر نہ سڑ جاون اپنی تیز اڑان دیوچ ۔ دشمن آخر دشمن اے رکھو تیر کمان دے وچ۔ بس یہی نکتہ ہے کہ اگر تیر کمان سے نکل گیا یا صرف زبان سے تو پھر وہ کسی کو گھائل تو کرتا ہے۔ حکمت عملی اور دانشمندی کو اولیت حاصل ہے چومکھی لڑائی کا فائدہ تو تب ہے کہ جب سر پر آن پڑے۔ اس امر میں تو کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے کہ عوامی اجتماع پر کوئی اس طرح حملہ آور ہو کہ لوگوں کی جانیں محفوظ نہ رہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ کہ آپ نہتے لوگوں کو عورتوں اور بچوں سمیت لے کر رات دن سفر میں رہتے ہیں تو پہلے حفاظت کا بندوبست کرتے ہیں کہ کوئی بھی تخریب کار تخریب کاری کر سکتا ہے حیرت تو اس بات پر ہے کہ پنجاب میں ان کی حکومت ہے اور لاہور ہی کو تحریک کے لانچنگ پیڈ کے لئے چنا گیا پھر آہستہ آہستہ چلنا اور دن بڑھاتے جانا۔ آپ ہر وقت سرگرمی میں ہیں اور آپ کو کوئی حفاظتی دستہ کور بھی نہیں کر رہا یہ تو اچھا ہوا کہ ایک بہادر شخص نے حملہ آور کے ارادے ناکام بنا دیے۔ اتنی تمہید میں نے اس لئے باندھی کہ عوامی مسائل درپیش ہیں ہمارے معروف فکشن رائٹر طارق بلوچ صحرائی ملنے آئے تو پتہ چلا کہ وہ ایک دو روز پہلے دیپال پور گئے تو راستے میں پھنس گئے نقشہ انہوں نے یہ کھینچا کہ جگہ جگہ لوگ ٹریفک بلاک کر رہے تھے ۔ دو گھنٹے کا سفر پھیل کر پانچ چھ گھنٹے تک پہنچ گیا۔یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔سکولوں اور کالجوں میں نئے داخلے ہوتے ہیں مثلاً بھانجہ جس کی کلاس سوموارکو تھی جمعرات پر چلی گئی ابھی حالات کا ٹھیک ہونا باقی ہے۔ سوال یہ ہے کہ طالب علم کیوں خراب ہو رہے ہیں۔ طلباء و طالبات کی صورت حال پہلے بھی کوئی تسلی بخش نہیں ہے اور اب کے تو معاملات خانہ جنگی کی طرف جا سکتے ہیں ان دنوں مجھے اپنے عزیز دوست اور نامور آئی سرجن ڈاکٹر محمد اکرم سے ملنے کا اتفاق ہوا ان کے بچے بھی لائق فائق ہیں ڈاکٹر صاحب بڑے دکھی دل کے ساتھ مجھ سے کہنے لگے جناب ہمارا کیا بنے گا کہ اب اس معاشرے میں اچھے اور ایماندار شخص کی کوئی جگہ نہیں اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جھوٹ فریب اور مکاری کا چال چلن ہے۔ کوئی کس پر اعتماد کرے اقتدار میں آ کر سب ایکسپوز ہو چکے انہوں نے ایک خاص بات کی طرف فوکس کیا کہ ہمارے بچے پہلے ہی سے طے کر کے بیٹھے ہیں کہ یہاں سے نکلنا ہے یہ برین ڈرین بہت دیر کا شروع ہے۔ وہ بتانے لگے کہ ان کی بھانجی کا بھی ایم بی بی ایس کا رزلٹ نہیں آیا مگر اس نے پہلے ہی امریکہ اور برطانیہ کے لئے ٹیسٹ پاس کر لئے ہیں۔ میں کیسے تائید نہ کرتا کہ میری بیٹی نے بھی وہ امتحان پاس کر کے پاسپورٹ بنا لیا ہے اس مسئلے کا حل کس کے پاس ہے سوچنا پڑے گا ڈاکٹرز زیادہ پیدا ہو رہے ہیں دوسری بات یہ کہ جو چند صد سیٹیں نکلتی ہیں وہ بست و کشاد سے جڑے ہوئے نمائندے لے اڑتے ہیں ۔جو لائق فائق طلباء و طالبات ہوتے ہیں وہ مارے جاتے ہیں دل برداشتہ ہو جاتے ہیں حکومت اور اپوزیشن کو کسی کی بھی کچھ پروا نہیں۔ اقتدار کے حصول کے لئے کوششیں جاری ہیں وفاق اور صوبوں کے مابین کسی کو کسی پر اعتماد و اعتبار نہیں حادثات پر بھی دشمن آوازے کستے نظر آتے ہیں ؎ اس زندگی کا سانحہ کتنا عجیب ہے ہم دیکھتے ہیں موت کو لیکن کسی کے ساتھ ہمارے جیسے لوگ ایک عذاب میں ہیں کہ لاقانونیت اور تشدد کا سنتے ہیں تو دل بیٹھنے لگتا ہے ظلم کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے وہ تشدد تھا الٰہی توبہ۔میں تو دشمن کی خطا بھول گیا۔ اعظم سواتی بے چارے دھاڑیں مار مار کر روتے رہے کہ کون ان کو سن کر اپنے آنسو روک سکتا ہے۔ ایک پچھتر برس کا آدمی جو مریض بھی ہے اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ جس نے بنایا وہ ان کے نام بھی لے چکے کون مگر پوچھے گا بہت دکھ ہوا کہ ایک تہجد گزار شخص جو مریض بھی ہے کیوں اٹھایا گیا برہنہ کیا گیا۔ آواز خلق کونقارہ خدا سمجھو۔ اب اس ظلم کو بند ہونا چاہیے کوئی قانون اور آئین سے ماورا نہیں کوئی مقدس نہیں یہ وقت اچھا نہیں ہو گا کہ ہاتھ پہنچیں جب گریباں تک۔ آخر میں تھوڑی سی بات کرکٹ کی کہ ہمارا تو تب سے دل بجھا ہوا تھا کہ پاکستان ٹی ٹونٹی زمبابوے سے ہار گیا انہوں نے ہمارے مسٹر ثانی پر بھی فقرے کسے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہوائیں تو ہمارے خلاف تھیں اور تھیں بھی بہت تندو تیز بھارت کا تعصب اور مکاری دیکھیے کہ وہ جان بوجھ کر سائوتھ افریقہ سے ہار گیا کہ پاکستان کو سیمی فائنل کی دوڑ سے نکال باہر کرے۔ بس پھر دوا کام نہ کرے تو دعا کارگر ہو جاتی ہے۔ اتفاق یہ ہوا کہ جنوبی افریقہ کے ساتھ بھی اپ سیٹ ہو گیا۔ بنگلہ دیش نے بھی کمال کیا کہ ہمارے اچھے دن آئے تو وہ کمال بونگی مار گئے کہ اس جیتنے کے باوجود بیٹنگ پر آ گئے اور یوں پاکستان پر احسان کیا ہمارے بائولرز نے انہیں 128تک محدود کر دیا حارث کی بیٹنگ کے باعث بنگلہ دیش سے جیت گئے بابر اچھا کپتان ثابت نہیں ہوا آج بھی اس نے مر مر کے 32گیندوں پر 25سکور کیا وہ مسلسل ناکام جا رہا ہے حارث کو اوپننگ سے محروم رکھا جا رہا ہے اپنی جگہ کون چھوڑتا ہے مگر کپتان کا فرض ہے کہ چل نہیں رہا تو ذرا ریسٹ کر لے پاکستانی عوام کے چہروں پر سرخی آ گئی کہ ہمارے لئے تو اب یہی خوشیاں ہیں کومل جوئیہ کا ایک شعر: یہ لوگ فہم و فراست سے ماورا ہیں ابھی میں تھک نہ جائوں انہیں باشعور کرتے ہوئے