مشرقی پاکستان کے کور کمانڈر جنرل صاحبزادہ یعقوب کی صدر جنرل یحییٰ خان سے تاریخی خط و کتابت ان کے استعفیٰ پر ختم ہوئی تھی کہ فوجی کمانڈر کے پاس یہی واحد آبرو مندانہ راستہ رہ گیا تھا۔ صاحبزادہ سوال کرتے ہیں کہ " کیا طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے امریکہ شمالی ویتنام میں امن سے رہ سکا جو ہم ایسا کر لیں گے؟ میں کسی ایسے مشن کا حصہ نہیں بن سکتا جس سے ملک اور فوج تباہ ہوجائے گی۔ جس کی قیادت کا اعزاز مجھے حاصل رہا طاقت اور تلوار کے ذریعے اتحاد قائم رکھنے کی کوشش خود کو تباہ کرنے کا نسخہ ہے۔ یہ تھے صاحبزادہ یعقوب خان جنہوں نے یحییٰ خانی ٹولے کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے استعفیٰ دے کر نئی روایت قائم کر دی تھی ۔ مشرقی پاکستان کمان کے کورکمانڈرصاحبزادہ یعقوب علی خان پانچ مارچ کو1971 کو مستعفی ہوگئے تھے۔ پانچ صفحات پرمشتمل ان کا استعفیٰ تلخ حالات کا خونیں باب تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’نپولین کا جنگ کے بارے میں قول اس صورتحال کا جامع اظہار ہے جس کا مشرقی پاکستان میں مارچ 1971 کے اوائل سے مجھے سامنا رہا۔ نپولین نے کہا تھا ’’جرنیل محاذ جنگ کا مکمل ذمہ دار ہوتا ہے۔ان غلطیوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا جو دوران جنگ خود اس سے یا اس کے کسی ماتحت یا مشیر وں سے ہوتی ہیں۔ اگر وہ کسی جنگی منصوبے کو مناسب نہیں سمجھتا‘ لیکن اس پرعمل کرتا ہے تو اس جرم میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ ایسی سنگین صورتحال میں کمانڈر کو منصوبہ تبدیل کرانے کے لئے دلیل کے ساتھ اصرار کرنا چاہئے اس کی وجوہات بیان کرنی چاہئیں، بصورت دیگر فوج کو تباہی سے دوچار کرنے کا ذریعہ بننے کے بجائے مستعفی ہو جانا چاہئے۔ اور جنرل صاحبزادہ یعقوب نے باوقار طریقے سے مستعفی ہونے کا راستہ چنا۔ انہوں نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان جنرل یحیٰی خان کے نام استعفیٰ میں لکھا تھا ’’موجودہ بحران کا واحد حل سیاسی ہے میں نے بارہا تجویز کیا ہے کہ صرف صدر مملکت ہی چھ مارچ1971 تک ڈھاکہ پہنچ کر دور رس اثرات کے حامل فیصلے لے سکتے ہیں۔ میں پوری طرح قائل ہوں کہ اس مسئلہ کا فوجی حل نہیں نکالاجا سکتا اس لئے میں فوجی کارروائی پر عمل درآمد کی ذمہ داری لینے کیلئے تیار نہیں ہوں جس کا واضح نتیجہ خانہ جنگی اور نہتے شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوں گی۔ اس اقدام کے ذریعے کوئی دانشمندانہ مقصد حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس کے تباہ کن اثرات نکلیں گے۔ اس لئے میں اپنے استعفیٰ کی تصدیق کرتا ہوں۔ جنرل صاحبزادہ یعقوب واضح کرتے ہیں کہ ’’راولپنڈی میں ہونے والی اہم ملاقات میں صدر یحییٰ نے یکم مارچ کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد میں شرکت سے متعلق پیدا شدہ بحران پر بات چیت کی۔ انتہائی سخت مارشل لاء کے نفاذ اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے التواکا ذکر کیا۔ اس آپریشن کی میں نے شدید مخالفت کی تھی۔ 23 فروری کوصدر کے چیف آف سٹاف میجر جنرل پیرزادہ کو اپنے خط میں ان خیالات کی تحریری توثیق کی جنہیں اسی روز صدر کے علم میں لایاگیا۔ اسلام آباد بھجوائے گئے میرے دیگر ٹیلی گراموں کے اقتباسات میں عام فوجی کارروائی سے باز رہنے اور سیاسی حل پر زور دیاگیا اور اس مقصد کے لئے صدر سے جلد از جلد دورہ ڈھاکہ کی درخواست کی۔ انہوں نے ڈھاکہ آنے پر اتفاق کیا‘ لیکن چار مارچ کو اچانک اپنا دورہ منسوخ کردیا۔ تین اور چار مارچ کے ٹیلی گرام کے اقتباسات ان حقائق کی وضاحت کرتے ہیں۔ بروقت مشوروں، مارشل لاء کے نفاذ کے نتائج اور سیاسی حل کے لئے صدر کے دورہ ڈھاکہ سے انکار کے بعد میرے پاس استعفیٰ کے سوا چارہ نہیں۔ کیونکہ شرح صدر کے ساتھ تحریری خیالات پیش کرچکا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ اس مشن کو قبول کرکے میں اس عمل کا راضی برضا حصہ بن جائوں گا جس سے پاکستان اور فوج تباہ ہوجائے گی جس کی قیادت کا اعزاز مجھے حاصل رہا۔‘‘ کہتے ہیں جنرل گل حسن نے تجویز پیش کی تھی کہ سارے مشرقی پاکستان کی بجائے صرف ڈھاکہ کے دفاع پر توجہ دی جائے اور عالمی برادری کے ذریعے کسی آبرومندانہ سمجھوتے تک پہنچا جائے کیونکہ اب ڈھاکہ کا پیالہ ہی متحدہ پاکستان لے لئے آخری حصار بن سکتا تھا آخری کمانڈر انچیف جنرل گل حسن نے جنرل نیازی کی توجہ اس حقیقت کی طرف بار بار دلائی تھی جنرل یحیی نہ مانے تو جنرلْ گل حسن شرابی جرنیل کے حکم پر "مشرقی پاکستان کے ایک ایک انچ کا دفاع کرتے رہے اور بھارتی فوج ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ڈھاکہ کی دہلیز پر پہنچ گئی اور وہاں کوئی اس کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں تھا اور ہماری خوش فہمیوں کا یہ عالم تھا کہ بھارتی چھاتہ بردار اتر رہے تھے اور ہم سمجھ رہے تھے کہ ہماری چینی دوست مدد کو آگئے ہیں۔ ڈھاکہ ڈوب رہا تھا اور خط اوّل پر موجود بڑبولے جرنیل خوش فہمیوں کی دلدل میں غرق تھے۔ اس دور بحران میں صرف ایک جرنیل صاحبزادہ یعقوب علی خان اور گورنر ایڈمرل احسن اور دوسرا شاعر حبیب جالب مستقبل کا عکس دکھا رہے تھے جالب پکار رہا تھا… محبت گولیوں سے بو رہے ہو وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو گماں تم کو کہ راستہ کٹ رہا ہے یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو (جاری ہے)