حضرت علیؓ کا قول ہے کہ کفر کے ساتھ معاشرہ زندہ رہ سکتا ہے ظلم کے ساتھ نہیں۔ ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ یہاں ظالم کا کوئی چہرہ نہیں معاشرتی بے حسی نے آنکھوں کا نور اور اجتماعی شعور چھین لیا ہے ۔مظفر گڑھ کے نذیر کے گھر پانچ دن فاقے رہے معصوم بچے پورے پانچ دن پانی سے روزہ رکھتے اور کھولتے رہے کسی کو احساس نہ ہوا! ایسا بھی نہیں کہ نذیر کسی جنگل یا صحرا میں انسانی بستیوں سے دور بھوک سے لڑ رہا تھا وہ انسانوں کے اسی بے حس جنگل کا باسی تھا۔اس کے ہمسائیوں، عزیز رشتہ داروں سے اس کی مفلسی چھپی نہ تھی۔ اس کے بہن بھائی محلہ دار رمضان میں ذکر و اذکار میں بھی مشغول ہوں گے اور آخرت سنوارنے اور ایام مقدس میں 70گنا ثواب کمانے لئے جھولیاں بھر بھر کر صدقہ خیرات بھی بانٹتے ہوں گے مگر نذیر اور اس کے پانچ دن سے بھوکے بچے مظفر گڑھ کے مومنین کی نظروں سے اوجھل رہے کیوں؟ فراق گورکھپوری نے کہا ہے کہ: دیوتائوں کو خدا سے ہو گا کام آدمی کو آدمی درکار ہے نذیر کی بدنصیبی کہ اس کو انسانوں کے جنگل میں کوئی آدمی میسر نہ آ سکا!! کوئی اللہ کا بندہ جس کی آنکھ دیکھ پاتی کہ غریب کے بچے پانچ دن سے بھوکے روزہ دار ہیں کیا ذہن یہ قبول کر سکتا ہے کہ بچوں کی بھوک سے عاجز آ کر پھندے پر جھول جانے والے نے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کوشش نہ کی ہو گی۔ نذیر کے عزیز رشتہ دار یہاں تک کہ ہمسائے ماں جائے اس کی مفلسی سے بے خبر ہوں یا اس نے دوستوں اور جاننے والوں سے مدد طلب نہ کی ہو گی؟ مگر بدقسمتی سے ہم زندہ کو کھانے کھلانے کے بجائے چہلم پر نیاز بانٹنے کو ہی ثواب جانتے ہیں ۔بے حسی کا کوئی مذہب ہوتا ہے نا کوئی عقیدہ، اگر علاقہ ہوتا تو غریب اپنے بچوں کے پیٹ کا جہنم بھرنے وہاں ہجرت کر جاتے۔ یہاں تو کراچی کے میر حسن کو اپنی بے بسی کی جانب وزیر اعظم کو متوجہ کرنے کے لئے آگ میں جلنا پڑتا ہے، شہراقتدار کا نعمت اللہ بھوک کاعلاج بیوی کو قتل کر کے خودکشی کرنے میں ڈھونڈتا ہے۔ لاہور کی ماں اپنی اور اپنے بچوں کو بھوک کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے ٹرین کے آگے کود جاتی ہے۔ یہ کسی ایک کا دکھ نہیںہر غریب اپنی آگ میں جل رہا ہے۔ معاشرتی بے حسی نے موت کو زندگی سے نجات کا واحد وسیلہ بنا دیا ہے۔پاکستان میں اپنے کندھوں پہ اپنی صلیب اٹھائے ماتم کرنیوالوں کی تعداد 35فیصد بنتی ہے۔ یہ سات کروڑ ہر روز موت سے زندگی کے لئے لڑتے ہیں۔ عہد حاضر کے غالب ظفر اقبال نے سچ ہی تو کہا ہے کہ: وداع کرتی ہے روزانہ زندگی مجھ کو میں روز موت کے منجدھار سے نکلتا ہوں موت کے منجھدار سے نکلنے والوں میں سے بہتوں کی ہمت جواب دے دیتی ہے یا پھر زندگی کو ان پر رحم آ جاتا ہے اور ان کو نجات مل جاتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ سات کروڑ نذیر اور نعمت اللہ اور بشری بیبیاںاپنے حالات اور موت کے خود ذمہ دارہیں اور کیا خود اپنے بچوں پر ظلم کیا؟؟یا ان کی کرب ناک مو ت ہی ان کا نصیب تھی ؟ اصل سوال تو یہ ہے کہ مظفر گڑھ کے نذیر کو دس بھینسوں کادودھ بیچ کر 90کروڑ کمانے کا خیال کیوں نہ آیا ، ٹرین کے آگے بچوں سمیت کودنے والی بشری کو نصرت اور مریم کی طرح کروڑوں روپے کی ٹی ٹیز بھیجنے والے نامعلوم کیوں نہ مل سکے۔نعمت اللہ کو اربوں روپے بنکوں سے قرضہ لینے اور معاف کروانے کی سہولت کیوں نہ مل سکی۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا کوئی حکومت 7کروڑ انسانوں کی بھوک لنگر خانے اور پناہ گاہیں تعمیر کر کے مٹا سکتی ہے ؟حکومتوں کا کام خیرات بانٹنا ہوتا ہے یا عوام کو باعزت روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنا؟ مسئلہ وسائل کی کمی کا ہے یا غیر منصفانہ تقسیم اور لوٹ مار کا ؟یہ کیسی غریب ریاست ہے کہ جہاں نامعلوم چہرے قرض کے 24ہزار میں سے ایک ہزار ارب پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں ؟کیا کوئی اور ملک بھی ایسا ہے جہاں 5ہزار ارب روپے ملک کو روشن کرنے کے نام پر لوٹ لئے گئے ہوں ؟یہ کیسا غریب ملک کہ جو 10برسوں میں پہلے سے ارب پتی مل مالکان کا منہ 29ارب کی سبسڈی سے میٹھا کرواتا ہے۔؟ دنیا کے کس ملک میں حکومت میں بیٹھے لوگ راتوں رات آٹے کی قلت پیدا کر کے اربوں کا منافع لیتے ہیں؟ کس قوم کا یہ چلن ہے کہ اربوں لوٹنے والے سینہ تان کر چور چور کا شور مچاتے ہوں؟ کب تک یہ قوم اپنی بدحالی کو مقدر اور حکمرانوں کی لوٹ مار کو ان کا حق تسلیم کرتی رہے گی ؟کب تک مرنے والوں کا ماتم اور قاتلوں کے قصیدے پڑھے جاتے رہیں؟ کب تک پاکستانی بھوک اور موت سے جون ایلیا کے مطابق یہ سوچ کر: اس گلی نے یہ سن کر صبر کیا جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں منہ چھپاتے رہیں گے یا پھر کبھی کوئی یہ سوچنے کی کوشش بھی کرے گا کہ ہر روز بھوک سے تنگ آ کر 35مرنے والوں کے قاتلوں کو پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ کب تک معصوم بچوں کی لاشوں کو دیکھ کر ہم معاشرتی بے حسی کے جواز کے پیچھے پناہ ڈھونڈتے رہیں اور کب تک استحصال زدہ بھوکے مرنے والوں کو اللہ کی رضا سمجھ کر منوں مٹی تلے دفن کیا جاتا رہے گا؟۔ ظالم قتل کرنے والا ہے یا ظلم سہنے والا؟ اگر یہ سچ ہے کہ کفر کے ساتھ معاشرے زندہ رہ سکتے ہیں مگر ظلم کے ساتھ نہیں تو ہم آخر کب تک ایمان کے زور پر ظالم معاشرے کی لاش کو گھسیٹتے حکمرانوں کے بدلنے کا انتظار کرتے رہیں گے؟ کب یہ بات سمجھیں گے کہ خود کو بدلے بغیر معاشرے کو بدلا جا سکتانہ کوئی حکمران مثبت تبدیلی لا سکتا ہے!!