آرنسٹ ہیمنگوے نے کہا تھا کہ بد انتظامی کی شکار قوم کا پہلا علاج مہنگائی ہے اور دوسرا جنگ۔دونوں عارضی خوشحالی لاتے ہیں اور مستقل تباہی، لیکن دونوں سیاسی اور معاشی موقع پرستوں کے لئے بہترین پناہ گاہ ہوتی ہیں۔آرنسٹ کے مطابق عارضی خوشحالی بھی نعروں اور دعوئوں کی صورت میں بہکاوا اور دھوکہ ہوتی ہے۔جنگ صرف عسکری نہیں ہوتی یہ سیاسی محاذ پر بھی لڑی جاتی ہے ۔پاکستان کو آج اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے ملک کا وزیر دفاع جلسہ عام میں پاکستانیوں کو ڈیفالٹ ملک کے باشندے ہونے کی اطلاع دیتا ہے تو وزیر اعظم اور وزیر خزانہ دن رات مہنگائی کے خلاف جنگ لڑنے کے دعویدار۔ولادیمیر لینن نے کسی بھی ملک کو برباد کرنے کا بہترین نسخہ اس کی کرنسی کو ختم کرنا بتایا تھا۔ موجودہ حکمران جب سے اقتدار میں آئے ہیں پاکستان کی کرنسی کو تباہی کی کھائی میں لڑکتی ہی جا رہی ہے۔حکومت اپنے اقتدار کے صرف دس ماہ میں ڈالر کی قیمت 176روپے سے 265 روپے تک پہنچا چکی۔نالائق لاڈلے کی حکومت میں جو پٹرول 170روپے میں بک رہا تھا تجربہ کاروں کی حکومت میں 274روپے میں مل رہا ہے۔ سٹیٹ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی میں 35.7 فیصد اضافہ ہوا جو ’’شہباز سپیڈ‘‘کی وجہ سے دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے۔ روپے کی قدر میں 44 فیصد کمی ہوئی ہے تو ملک کی 80 فیصد صنعتیں بندپڑی ہیںیا بند ہونے کو ہیں۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر لینے کے لئے ناک سے لکیریں نکالنے والے وزیر خزانہ کے صرف ڈالر کی قدر کو کیپ کرنے سے ترسیلات زر اور برآمدات کی کمی کی صورت میں ملک کو 3ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کی وجہ سے صرف جنوری 2023ء میں ترسیلات زر میں 13.4فیصدجبکہ اقتدار کے دوران 11فیصد کمی ہوئی ہے۔ایل سیز پر پابندی کی وجہ سے درآمدات میں بلاشبہ کمی ہوئی مگر اصل سے زیادہ سود بڑھنے کے مصداق برآمدات کو بریک لگ چکی ۔ پاکستان کی برآمدات میں ٹیکسٹائل مصنوعات کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔80 فیصد ٹیکسائل ملیں بند ہو چکی ہیں۔ خام مال کی قلت کی وجہ سے فارما سیوٹیکل انڈسٹری ملک میں ادویات کی قلت کے بارے میں خبردار کر چکی ہیں۔لارج سٹیل مینوفیکچرنگ انڈسٹری اپنے آپریشنز بند کر رہی ہے۔ان حالات میں حکومت کا سارا زور کابینہ کی تعداد میں اضافے اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی پر آواز کو دبانے پر ہے۔ ملک کی خاطر قربانی کے مطالبے پر عام آدمی ماضی میں بھی اشرافیہ سے بھی قربانی کا تقاضا کرتا رہا ہے مگر اب خود کشی پر مجبور غریب سے جب مزید قربانی کا تقاضا ہوا تو سوشل میڈیا پر حکومتی اللوں تللوں کے بارے میں تفاصیل کی بھرمار ہونے لگی جب غریبوں کے لئے جینے مرنے والوں کے دعوئوں کا پول کھلنا شروع ہوئے اور عام آدمی نے یہ سوال کرنا شروع کیا کہ جب ملک ڈیفالٹ کر چکا تو وزیر اعظم کی طرف سے دنیا کی سب سے بڑی کابینہ کا کیا مطلب! غریب 85 رکنی کابینہ کی عیاشیوں کے قربانی کیوں دے؟ تو عوام کو یہ بتانے کی بجائے کہ دنیا اور پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ کا جواز کیا ہے اور یہ کیونکر ملک و قوم کے مفاد میں ہے حکومت نے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے وزیروں مشیروں کے گاڑیاں واپس کرنے اور تنخواہ نہ لینے کا احسان تو جتا دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ وزیر خزانہ نے لگ بھگ چار سال جو بیرون ملک گزارے تھے وزیر خزانہ بنتے ہی سب سے پہلے 77 کروڑ روپے اس مفروری کی قیمت قومی خزانہ سے تنخواہ کی صورت میںوصول کر لی ہے۔وزیر اعظم کمال مہربانی سے کابینہ کے بجلی اور پیٹرول کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے کا اعلان تو کر رہے ہیں مگر یہ نہیں بتا رہے کہ تنخواہ نہ لینے کے باوجود بھی مراعات کی صورت میں دنیا کی سب سے بڑی کابینہ قوم کو کتنے میں پڑے گی؟۔ اقوام متحدہ کے ڈویلپمنٹ پروگرام نے 2022ء میں پاکستان ہیومن رپورٹ جاری کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان اشرافیہ جس میں جاگیردار سیاستدان کارپوریٹ سیکٹر اور بیورو کریسی شامل ہے کو سالانہ 17.4ارب ڈالر کی مراعات فراہم کرتا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف کا کل پیکیج بھی 7 ارب ڈالر کا تھا۔ یو این ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کو اگر سچ مان لیا جائے جو یقینا سچ ہے بھی، تو کیا پاکستان کے غریب کو یہ پوچھنے کا حق نہیں کہ کیا حکومت کشکول لے کر ملک ملک اور آئی ایم ایف کے پاس پاکستانیوں کو گروی رکھنے ملک و قوم کے لئے جاتی ہے یا پھر بلکہ اشرافیہ کو 17.4ارب ڈالر کی مراعات دینے کے لئے؟۔شہبازشریف کو اگر ملک اور قوم سے محبت نہ سہی دلچسپی ہی ہوتی توقوم کو ذبح کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے پھینکنے کے بجائے اشرافیہ کی مراعات ملک میں ایمرجنسی لگا کر ہی ختم کرنیکی کوشش ہی کرتے ،اگر ملک و قوم کے لئے ہی کچھ کرنا ہوتا تو اپنے نا سہی محب الوطن پاکستانیوں سے ہی بیرون ملک پڑے 300 ارب ڈالر میں سے کچھ پاکستان کے بنکوں میں رکھنے کی اپیل کر دیتے۔ستم ظریفی تو یہ کہ جب کوئی صحافی اس بارے میں سوال کرتا ہے تو سوال کا جواب دینے کے بجائے چینل کا نام پوچھ لیتے ہیں اور جواب خمار بارہ بنکوی کے بقول : بھولے ہیں رفتہ رفتہ انھیں مدتوں میں ہم قسطوں میں خود کشی کا مزہ ہم سے پوچھیے ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپ کی طرح ہنسیے مگر ہنسی کا مزہ ہم سے پوچھیے اب تو شریف خاندان کی طرح عمران خان بھی سیکھ چکے ہیںکہ اس پھل کو کھانے کی قیمت جنت سے نکلنے کی صورت میں ادا کرنا پڑی ہے ۔ احتساب کس کا کرنا ہے اور کس کو چھوڑنا ہے عمران خان اسی اختیار کے استعمال کے شوق کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونے گرفتاریاں دے رہے ہیں سو!پاکستانیوں پاکستان تمہارا ہے مہنگائی کا رونا چھوڑو ۔چپ چاپ سر قربانی کے لئے پیش کرتے رہو جب مہنگائی سے عاجز آ کر یہ سوچ کر خود کشی کا ارادہ ترک کرنے لگو کہ شاید نالائق یا تجربہ کاروں میں سے کوئی مہنگائی ختم کر دے گا تو معروف جرمن بینکر کارل پوہل کا یہ قول یاد کر لینا کہ مہنگائی ٹوتھ پیسٹ کی طرح ہے ایک بار باہر آ جائے تو شاید ہی کوئی اسے دوبارہ اندر داخل کر سکے۔