لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر تجزیہ کار ایاز خان نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ سندھ اسمبلی کے سپیکر کوکراچی کی بجائے اسلام آباد سے کیوں گرفتار کیا گیا ۔پروگرام دی لاسٹ آور میں میزبان مہرین سبطین سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے جس طرح ڈرامائی انداز میں گرفتاری کی گئی ، اس سے پیپلزپارٹی کو کوئی فائدہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔شہباز شریف ایک حدسے آگے نہیں جائیں گے ۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے کبھی نہیں بگاڑتے ۔ پیپلزپارٹی اوردیگراپوزیشن جماعتوں کے پاس سٹریٹ پاور نہیں ۔اگر زرداری پھنس جاتے ہیں تو پارٹی کو لیڈکرنے کیلئے بلاول بھٹو موجودہیں۔ سینئر تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا نیب کو ہمیشہ سیاسی پارٹیاں بنانے اوربگاڑنے اورحکومتوں کو بنانے اوربگاڑنے کیلئے استعمال کیاجاتا رہاہے ۔ نیب کو اٹھارہ سال ہونے کو ہیں لیکن انہوں نے قانون کے مطابق کسی ایک سیاستدان کو سزا دلائی نہ کوئی پیسہ وصول کیا۔ کسی سیاستدان سے ایک دھیلہ وصول نہیں کیا۔بیوروکریسی اگر کام نہیں کررہی ہے تو اس میں بھی نیب کا کردار ہے ۔ اگر نیب ایسی ہی چلتی رہی تو یہ حکومت کو بھی نہیں چلنے دے گی۔یہ کوئی طریقہ نہیں کہ آپ کے پاس ثبوت نہیں اور کسی کو گرفتار کرکے بند کردیں۔ نیب کا یہ قانون ختم ہونا چاہئے ۔ جب بھی زرداری کو دیوار سے لگائیں گے تو وہ سندھ کارڈکا استعمال کریں گے ۔فضل الرحمان کا ارادہ ہے کہ اسلام آبادمیں ملین مارچ کیا جائے اس حوالے سے ان کی بات پیپلزپارٹی سے چل رہی ہے ۔تجزیہ کار صابر شاکر نے کہا سراج درانی کو چاہے کہیں سے بھی گرفتار کرتے سیاسی انتقام کا رونارویاجاناتھا۔ یہ خود سپیکرکی سیٹ کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں۔ نیب کا سارا قانون اپوزیشن نے بنایا ، وہی ا ن کیخلاف استعمال ہورہاہے ۔ اپوزیشن میں اپنی حد سے آگے جانے کی کوئی سکت نہیں ۔ شہبازشریف حدسے آگے نہیں جائیں گے جبکہ پیپلزپارٹی کی ایک صوبے میں حکومت ہے وہ کیوں اسلام آباد کو غیر مستحکم کریگی ۔پلوامہ حملے کے بعد بھارت جو حاصل کرنا چاہتا تھاوہ حاصل نہیں کرسکا ۔ نوازشریف نے ملک سے غداری کی، ان کا ٹرائل ہونا چاہئے ۔