عجیب سی سالگرہ ہے۔سالگرہ بھی دسویں۔ایسے جوان دوست کی دسویں سالگرہ جس سے بہت گلے شکوے ہیں لیکن اس کے بغیر اب گزارا بھی نہیں۔اب سمجھ نہیں آرہا اسے گرم جوشی سے مبارک دوں، رسم نبھاؤں یا بالکل نظر انداز کردوں۔کوئی بھی صورت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ 2008 ء کی بات ہے جب میں پہلی بار فیس بک پر آیا تھا۔اس بات کو دس سال ہوگئے۔فیس بک کا نیا نیا شہرہ تھا اور کم ہی لوگ اس وقت یہ استعمال کرتے تھے۔لیپ ٹاپ کی دنیا تھی اور سمارٹ فون کی دنیا ابھی کچھ فاصلے پر تھی۔میں نے فیس بک پر اکاؤنٹ بنایا ،اس شہر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ گلیاں سڑکیں اتنی پر ہجوم نہیں ہیں۔جانے پہچانے چہرے کم کم ہیں اور اردو دنیا کے گنتی کے ادیب؍شاعر؍صحافی دیکھے جاسکتے ہیں۔سب سے مزے کی بات یہ لگی کہ دنیا کے کسی ایک کونے میں بیٹھا ہوا فرد دوسرے کونے کے فرد سے رابطے میں تھا اور وہ بھی اپنا تخلیہ ترک کیے بغیر۔فیس بک بنانے والے ابھی سفر کے آغاز میں تھے اور اس کے امکانات تیزی سے تلاش کر رہے تھے۔بہت سی سہولیات جو اب دستیاب ہیں اس وقت خیال کی سرحدسے دور تھیں۔ فیس بک کو ایک نو آباد شہر سمجھ لیں تو اس وقت اس کے کم گھر آباد تھے اور اسی لیے ہاہاکار کم اورسکون نسبتاً زیادہ تھا۔ایسے لوگوں سے ملاقات ہونے لگی جن کا صرف نام سنا تھا یا تحریریں پڑھی تھیں۔انسان کی جبلتوں میں سے ایک جبلت تجسس بھی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ فیس بک پر دوسروں کو جاننے کا عمل۔سو یہ عمل بھی شروع ہوا۔کچھ لوگ پہلے سے عملی دنیا میں ایک دوسرے سے متعارف تھے۔ہم سات آٹھ لوگ اکثر یکجا ہونے لگے ،حالانکہ ہم سب دنیا کے مختلف شہروں میں رہتے تھے اور ان شہروں میں وقت کا فرق بھی بہت تھا۔فیس بک پر سب سے پہلے فی البدیہہ مشاعروں کی بنیاد ہم نے ڈالی۔جس میں مزاحیہ شعروں کی تعداد غالب تھی۔پھر ہم نے سنجیدہ فی البدیہہ مشاعرے بھی شروع کیے جو اب تک فیس بک کی دیواروں پر کہیں چسپاں ہیں۔طبیعت رواں اور لہو گرم رکھنے کا بہانہ اب فیس بک ہوگئی ۔ انہی دنوں انہی سات تخلیق کاروں نے اپنا ایک محدود گروپ تـشکیل دیا جس کا نام’’ ـ بے ساختہ ‘ ‘ رکھا گیا۔اس وقت تک فیس بک پر گروپ بنانے کی سہولت موجود نہیں تھی۔لہذا فیس بک چیٹ پر بے ساختہ کی مجلسیں منعقد ہوا کرتیں۔جن میں خوش گپیوں،گپ شپ،علمی استفادہ اور تازہ غزلوں نظموں پر آراء تو ہوتی ہی تھیں، لیکن اصل مزا مختلف افراد اور ان کی شاعری پر تبصروں کا تھا۔ہر طرح کے لوگ فیس بک پر موجود تھے اور مزید شامل ہورہے تھے۔ان کے احوال، ان کی شاعری،ویڈیوز اور پوسٹس پر مزے کے تبصرے ہوا کرتے تھے جن کا مقصد محض خوش وقتی تھا دل آزاری ہرگز نہیں۔ بڑے مزے کے جملے لکھے جاتے تھے جنہیں خوف ِفساد ِخلق سے یہاں شامل نہیں کیا جاسکتا۔کئی سال بے ساختہ بہت فعال رہنے کے بعد مصروفیات اور دیگر وجوہات سے بکھر گیا۔ ملاقات اب بھی ہے لیکن وقت وقت کی بات ہوتی ہے ۔وہ گہما گہمی نہیں۔سو اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔ یہ سب دوست فیس بک پر فعال ہیں۔اللہ ان سب احباب یعنی جناب مجید اختر،گلناز کوثر،عرفان ستار،احمد صفی،ظفر خان،یاور ماجد کو ہمیشہ خوش رکھے اور یہی دعا ساتویں رکن یعنی سعود عثمانی کے لیے بھی ہے۔ انہی دنوں میں نے تجویز دی کہ فیس بک پر انگریزی اصطلاحات کو اردو میں منتقل کیا جائے۔فیس بک کے لیے کتاب چہرہ،وال کے لیے لوح اوردیوار ،سٹیٹس کے لیے احوال ،کیفیات، ٹیگ کے لیے ملحق اور نتھی ،لنک کے لیے ربط اور رہنما کے لفظ تجویز کیے گئے۔بعض بہت تخلیقی تراجم بھی وجود میں آئے مثلا ویڈیوز کے لیے عکس ِ رواں۔اس وقت فیس بک پر چونکہ لیپ ٹاپ پر ہی آن لائن ہواجاتا تھا اس لیے فیس بک کا انتظار لگتا تھا اور یہ مصروفیت دیگر مصروفیات سے زیادہ پر لطف اور وقت کھینچنے والی تھی۔ لیکن پرسکون باغ میں بہت جلد سانپ سرسرانے لگے۔بہت جلد فیس بک پر مذہبی ، مسلکی،سیاسی اور گروہی جھگڑوں کا آغاز ہوگیا۔اگرچہ اس کا منبع اور مصدر چند ہی لوگ تھے اور ہر فتنہ ہر پھر کر انہی کی طرف لوٹ آتا تھا۔لیکن تالاب بہرحال گندہ ہونا شروع ہوگیا تھا۔ظاہر ہے شاعر،ادیب برادری کا ان معاملات سے براہ راست تعلق نہیں تھا لیکن ایک تو ہر شخص کوئی نہ کوئی عقیدہ رکھتا تھا، چاہے وہ بے عقیدگی کا ہی عقیدہ کیوں نہ ہو۔دوسرے اس طرح فیس بک پر اپنی بات کہنے کی آزادی نئی نئی میسر آئی تھی۔تیسرے فیس بک اپنے ابتدائی مراحل میں تھی اس لیے پابندیاں نہ ہونے کے برابر تھیں ۔نتیجہ یہ کہ روز سر پھٹول ہونے لگی۔مذہب سے آگے بڑھ کر مسئلہ مسلکی اختلاف تک پہنچا اور پھر سیاست سے ہوتا ہوا ادبی گروہ بندی کی حدوں میں داخل ہوگیا۔بڑے بڑے چہرے سامنے آئے۔فتنہ گر تو جو تھے سو تھے لیکن یہ تجربہ پہلی بار ہوا کہ بظاہر بہت خوش مزاج، آزاد منش اور کھلے دل کے لوگ مذہب بلکہ مسلک کی بات آتے ہی اندر سے کیسے جنونی نکل آتے ہیں۔اور عدم برداشت کا مسلسل گلہ کرنے والے خود ایک جملہ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر بندہ جو کچھ بھی ہے ظاہر ہوجاتا ہے۔چنانچہ اس کا اگر کچھ اور فائدہ نہ بھی ہو تو یہ فائدہ کیا کم ہے ؟ سو بہت سے یارانے تو گئے لیکن بڑا فائدہ یہ ہوا کہ لوگ پہچانے گئے۔ ان لامتناہی جھگڑوں سے بیزار لوگوں کو، جو محض علم ادب کی بات کرنا چاہتے تھے، ایک سہولت اس وقت ملی جب فیس بک نے پبلک اور محدود گروپس بنانے کی سہولت دی۔یہ ایک پرسکون گوشہ بنا لینے کا موقعہ تھا ۔چنانچہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ’’ ـ حرف کار ‘ ‘ نامی گروپ بنایا جس کا داخلہ بوجوہ محدود تھا۔ یہ فیس بک گروپس کے بالکل شروع کی محفل تھی اور اس وقت تک خال خال ہی کوئی ادبی گروپ موجود تھا۔۔ہم کچھ لوگ جو دنیا کے مختلف شہروں میں بیٹھے تھے مشترکہ طور پر اس کے منتظمین بنے اور یہ کامیاب ترین گروپ کم و بیش پانچ سال تک فعال رہا۔علمی ادبی مباحث ،تنقیدی نشستیں،انٹرویوز،کسی تخلیق کار کی یاد منانے کی روایت،حوصلہ افزائی،نوواردوں کی تربیت اور تعلیم۔کیا نہیں تھا اس گروپ میں؟بہت سے ادبی کاموں میں حرف کار ایک قابل طمانیت کام تھا۔بعد ازاں تیزی سے ادبی گروپ بننے لگے اور اب شاید ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔اطمینان یہ ہے کہ ہم نے فیس بک کو مثبت اور تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کرنے کی بنیاد ڈالی تھی اور اس کی بنائی ہوئی روایات کی بہت بڑی تعداد میں پیروی کی جارہی ہے ۔ وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے ۔کچھ ہی عرصے میںسمارٹ فون چہچہانے لگا اور اس نے توجہ کھینچ لی ۔فیس بک سمیت ساری دنیا اس کے اندر اتر آئی ۔ لیپ ٹاپ ایک از کار رفتہ پرانے ملازم کی طرح ایک کونے میں پڑا رہنے لگا۔اب موبائل پر نظریں جمنے لگیں۔حرف کار پر کام اسی کے ذریعے ہونے لگا۔محفل میں ہونے والے کا م کا اطمینان اپنی جگہ لیکن اس بے اطمینانی کا کیا علاج ، اس احساس کا کیا مداواکہ فیس بک اور سوشل میڈیا نے مجھے کتابوں، رسالوں اور چھپے ہوئے حروف سے دور کرنا شروع کردیا تھا۔ کسی اور کی تو کیا اپنی کتابوں سے بھی ۔ حرف کار پر اتنا وقت گزر جاتا تھا کہ اپنے زیر تکمیل مسودات کے لیے وقت ہی نہیں بچتا تھا۔اور یہ حال صرف میرا نہیں حرف کار کے سب منتظمین کا تھا ۔ سب معروف نام تھے اور سب ہی یہ نقصان محسوس اور برداشت کر رہے تھے۔چنانچہ ایک دن یہ فیصلہ کیا کہ بہت ہوگئی تعلیم و تربیت۔اب اپنی تعلیم اور تربیت کی طرف بھی کچھ توجہ دے دینی چاہیے۔چنانچہ حرف کار کو دل پر پتھر رکھ کر فیس بک پر منجمد کیا اور اپنا لکھنے پڑھنے کا منجمد کام از سر نو سیال کیا۔ محض دس سال ۔ لیکن لگتا ہے فیس بک سے پہلے کی دنیا کم از کم پچاس سال پہلے کی تھی۔اس سے پہلے رابطے کس طرح ہوا کرتے تھے،اب بھولتا جارہا ہے ۔ اس دوست نے آکر پرانے دوستوں کو ایک طرف کر دیا ۔شاکی نظریں دیکھی نہیںجاتیں ۔ کتابوں، رسالوں، کاغذوں،قلموںسے دوستی دیرینہ ہے لیکن شکوے تازہ۔اور آج اس جوان دوست کی دسویں سالگرہ ہے ۔ اب سمجھ نہیں آرہا اسے گرم جوشی سے مبارک دوں، رسم نبھاؤں یا بالکل نظر انداز کردوں۔کوئی بھی صورت ٹھیک نہیں لگ رہی ۔آپ ہی بتائیں کیا کروں؟