مادر وطن میں معاشی و اقتصادی عدم استحکام اور بحران تھمنے کا نام نہیں لے رہے، لہٰذا عام آدمی کا متاثر ہونا فطری عمل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں عام طور پر سب جانتے ہیں کہ مہنگائی کی شرح ادوار ترقی میں بھی 3 سے 5 فیصلہ تک رہتی ہے مگر ہمارے ہاں یہ شرح 41 فیصد سے کچھ اوپر یا نیچے ہے۔ خطہ غربت کی لکیر تلے زندگی بسر کرنے والوں کی شرح میں بھی بدرجہ اتم اضافہ جاری ہے مگر کوئی ہوش کے ناخن لینے کو لینے کو تیار نہیں۔ نواز شریف کی واپسی کے باوجود عوام کی غالب اکثریت کو ان سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مابین لفظی جنگ خالصتاً سیاسی مفادات کے ٹکراؤ اور دوسرے زاویے سے نورا کشتی ہے جو استحکام پاکستان پارٹی کو عوام کنگز پارٹی کا درجہ حاصل نہ ہونے دے گی، گویا حالات بہت بدل چکے پیں۔ ظلم ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے انکشاف کیا ہے کہ بیمار حکومتی اداروں کے باعث ملکی معیشت کو 5 سو ارب کے نقصانات ہو چکے ہیں۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ ملکی اکانومی کے 44 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔سٹیٹ بینک نے 17 نومبر تک ختم ہونے والے ہفتہ کے جو اعدادو شمار جاری کیے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں 23 کروڑ 32 لاکھ ڈالرز کی کمی ہوچکی، اس کمی کے بعد مجموعی ذخائر 12 ارب 30 کروڑ 23 لاکھ ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے۔ گزشتہ ہفتہ مجموعی ذخائر 12 ارب 53 کروڑ 55 لاکھ ڈالرز کی سطح پر تھے، یعنی مرکزی بینک کے ذخائر 21 کروڑ 67 لاکھ ڈالرز کم ہوگئے۔ اب مرکزی بینک کے ذخائر 7 ارب 18 کروڑ ڈالرز کی سطح پر پہنچ گئے، کمرشل بینکوں کے ذخائر میں بھی 1 کروڑ 65 لاکھ ڈالرز کی کمی ہوئی، اس طرح کے مایوس کن حالات میں بھی ہماری نگران حکومت کی ترجیحات کا اندازہ کیجئے؛ سابق وفاقی وزیر مونس الٰہی کو واپس لانے کے لیے نگراں وفاقی حکومت نے انٹرپول سے رابطہ کیا ہے۔ ایف آئی اے نے انٹرپول حکام سے رابطے کر کے انھیں مونس الہٰی کے خلاف تمام مقدمات کی تفصیل شیئر کر دی ہیں۔ انٹرپول سے چودھری مونس الہٰی کی گرفتاری کے لیے ریڈ نوٹس جاری کروانے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ مونس الہٰی کی پراپرٹیز اور بینک اکاؤنٹس کو بھی منجمد کر دیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے مختلف بینک اکاؤنٹس سے 48 کروڑ روپے نکلوائے تھے اور یہ رقم منی لانڈرنگ میں استعمال ہوئی تھی۔ نگران حکومتوں کی آئینی پوزیشن پر جسٹس اطہر من اللہ کا عام انتخابات کی تاریخ کے کیس سے متعلق جو 41 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری ہوا ہے، اس میں سارے جواب موجود ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ میں لکھا: نگرانوں کے ذریعے حکومت چلانا خلاف آئین ہے، دنیا کے کئی جمہوری ممالک میں نگران حکومتوں کا تصور نہیں، نگران حکومتیں صرف آئین میں دی گئی مدت تک کام کر سکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن اور صدر مملکت نے 8 فروری کی تاریخ دے کر خود کو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا۔ انتخابات میں 90 دن سے اوپر ایک بھی دن کی تاخیر سنگین آئینی خلاف ورزی ہے جو اب ہو چکی، اس خلاف ورزی کو مزید ہونے سے روکا بھی نہیں جا سکتا۔اضافی نوٹ میں کہا گیا الیکشن کی تاریخ دینا آرٹیکل 48 شق پانچ کے تحت صدر مملکت کا اختیار ہے۔ اگر صدر مملکت یا گورنرز تاریخ دینے کی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تھے تو الیکشن کمیشن کو اپنا کردار ادا کرنا تھا۔ الیکشن کمیشن، صدر یا گورنرز کے ایکشن نہ لینے پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ کے اضافی نوٹ میں مزید لکھا گیا نوے روز میں انتخابات نہ کرانے کی آئینی خلاف ورزی اتنی سنگین ہے کہ اس کا کوئی علاج ممکن نہیں۔ اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 کروڑ 56 لاکھ 26 ہزار 390 رجسٹرڈ ووٹرز کو ان کے حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا۔ انتخابات میں تاخیر کو روکنے کے لئے مستقبل میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، ہر عوامی عہدہ رکھنے والا آئین کے تحفظ کا حلف اٹھاتا ہے، یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن کیا کردار ادا کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کا بلے کا انتخابی نشان برقرار رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات 20 دن میں دوبارہ کرانے کا حکم دے دیا۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق 13ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات پر نوٹس لیا تھا جبکہ پی ٹی آئی نے گزشتہ سال 8 جون کو پارٹی انتخابات کی تفصیلات جمع کرائی تھیں۔ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی کا بلے کا انتخابی نشان فی الحال برقرار ہے۔ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر کارروائی ہوگی، فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے: پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات شفاف کرانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہ کرسکا اور پی ٹی آئی کے در پے ہے۔ کیا بلے کا انتخابی نشان چھن جانے سے ووٹر کم ہوجائیگا؟ پی ٹی آئی کے حوالے سے نگران حکومت کے اقدامات کسی سے ڈھکے چھپے اور پی ٹی آئی کے ساتھ لیول پلیئنگ فیلڈ کا معاملہ بھی سب دیکھ رہے ہیں جبکہ لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل کرنے والی جماعتوں کے مابین اقتدار کی حرص میں رسہ کشی نرالے انداز میں جاری ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے ن لیگ پر متواتر وار جاری ہیں اور آصف علی زرداری نے اپنے پسندیدہ اینکر پرسن کو انٹرویو میں کہا ہے کہ بلاول ابھی انڈر ٹریننگ ہیں۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں ملکی ترقی کا کوئی فارمولا نہیں دے سکیں، سب کو علم ہے کہ آئندہ مخلوط حکومت ہوگی، جس میں پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں اہم شراکت دار ہوگی مگر جی ڈی اے، باپ پارٹی، جے یو آئی، جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز کی پیپلزپارٹی سے معاملات طے ہونے کے باوجود ن لیگ سے راہ و رسم بلاول کو احتجاج پر اکسا رہے ہیں جبکہ عوام کی کسی کو پرواہ نہیں، یہ آخر ایک روز شیر و شکر ہوںگے، عام آدمی کا کیا؟ اس کے مسائل کا کیا؟ ناجانے سمجھتے کیوں نہیں؟ یہی نہ سمجھی انہیں پی ٹی آئی کی ہر سروے میں مقبولیت سمجھنے نہیں دیتی۔