ان دنوں احتساب کے قانون میں تبدیلی پر حکومت اور اپوزیشن میں بات چیت چل رہی ہے۔ حکومت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں ترامیم پر مبنی ایک مسودۂ قانون حزبِ اختلاف کو پیش کیا ہے کہ وہ اس پر اپنی رائے دے تاکہ مشاورت سے ترامیم کی جاسکیں۔ اس مسودہ میں زیادہ تروہی نکات ہیں جو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے گزشتہ سال حکومت نافذ کرچکی ہے جنہیں اب وہ پارلیمان سے باقاعدہ منظور کروانا چاہتی ہے کیونکہ آرڈیننس ایک محدود مدت سے زیادہ نافذالعمل نہیں رہ سکتا۔ دنیا میں احتساب کے قوانین سخت سے سخت ہوتے جارہے ہیں لیکن پاکستان وہ انوکھا ملک ہے جہاں کرپشن کے خلاف قانون کو نرم اور بے اثر بنانے کے لیے ترامیم کی کوشش کی جارہی ہے۔ اپوزیشن تو نیب کے قانون کا مکمل خاتمہ چاہتی ہے۔ گزشتہ سال نیب کے قانون میں ترامیم کرکے کاروباری افراد اور اعلی سرکاری افسروں کو اسکی گرفت سے باہر نکالا گیا۔ اب کوشش یہ ہے کہ اس کے دائرہ اختیار سے ارکانِ پارلیمان کو بھی تحفظ دیا جائے۔ اسکی شقوں کو اتنا نرم بنایا جائے کہ عملی طور پر یہ قانون بے اثر ہوجائے۔ ایک ترمیم یہ تجویز کی گئی ہے کہ ٹیکس وغیرہ سے متعلق جو بھی الزامات ہیں نیب کا ادارہ اُن پر تحقیق نہ کرے ‘نہ مقدمہ بنائے بلکہ ایسے معاملات وفاقی ٹیکس ادارہ (ایف بی آر) دیکھے۔ مثلاً اگر کسی سرکاری افسر یا وزیر وغیرہ نے کروڑوں روپے کے ٹیکس ادا نہیں کیے اور قومی خزانہ کو نقصان پہنچایا ہے تو نیب اس پر پوچھ گچھ نہیں کرسکتا۔ ٹیکس چوری کرپشن کے زُمرے سے باہر نکل جائے گی۔ اس ترمیم کے کئی اور مضمرات ہوں گے۔ مثال کے طور پر اگر نیب الزام لگائے کہ کسی افسر یا سیاستدان کی دولت ناجائز ہے اور یہ دولت اُسکے ٹیکس گوشواروں سے مطابقت نہیں رکھتی تو ملزم چیلنج کرسکے گا کہ نیب ٹیکس گوشواروں کو چیک نہیں کرسکتا‘ ان پر اعتراض نہیں کرسکتا کیونکہ یہ اسکے دائرۂ اختیار میں نہیں۔ ایک اور مجوزہ ترمیم یہ ہے کہ عوامی عہدہ رکھنے والا اگر نیک نیتی سے کام کرے تو اس پر مقدمہ نہیں بن سکے گا خواہ اس سے قومی خزانہ کو نقصان پہنچے۔ مقدمہ اس صورت میں بنے گا جب عہدیدار کے کام سے اُسکو ذاتی فائدہ پہنچنے کا ثبوت موجود ہو۔ معاملہ یہ ہے کہ کمیشن کھانے کی کوئی نہ تو رسید دیتا ہے نہ رشوت دینے ولا رسید لیتا ہے۔ کک بیکس کی رقم کو ثابت کیا نہیں جاسکتا۔ بڑے منصوبوں کی صورت میں یہ اکثر بیرون ممالک کے بے نامی بینک اکاونٹس میں جمع کرادی جاتی ہے۔ ملک کے اندر قیمتی گاڑیوں‘ بنگلوں‘ بیرونی دوروں‘ سونے کے زیورات یا قیمتی تحفہ جات کی شکل میںدی جاتی ہے۔ جب بھی کوئی حکمران قانون اور قواعد کی خلاف ورزی کرکے کوئی ٹھیکہ یا مراعات کسی پارٹی کو دیتا ہے تو اسکے پیچھے بھاری رشوت ہوتی ہے۔ جب آپکا قانون یہ کہتا ہے کہ کروڑوں‘ اربوں روپے کے معاملہ میںقانون‘ قاعدہ کی خلاف ورزی کرنے والے کا کوئی ذاتی فائدہ ثابت نہیں ہورہا ‘اس لیے اُس پر کرپشن کا مقدمہ نہیں بن سکتا تو بات ختم ہوگئی۔ذاتی فائدہ کا ثبوت ڈھونڈنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ کرپشن تو صرف دو طرح سے ثابت کی جاسکتی ہے۔ ایک یہ کہ کسی کام میں قاعدہ‘ قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔ دوسرے‘ کسی سرکاری افسر یا حکومتی عہدہ رکھنے والے سیاستدان نے اتنے اثاثے بنالیے جو اسکی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اگر آپ یہ معیار ہی ختم کردیں گے تو پھر کسی کا احتساب ممکن نہیں رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ برس حکومت نے نیب کا ترمیمی آرڈیننس جاری کیا اسکا حوالہ دیکر سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف احتساب عدالت سے کرپشن کے مقدمہ میںبری ہوگئے۔ اسی طرح نجی کاروبار کرنے والوں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکالنے کی تجویز ہے۔ مثال کے طور پرماضی میں پنجاب میں ڈبل شاہ نامی شخص نے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا۔ نیب نے اس پر ہاتھ ڈالا اور بیشتر افراد کی رقم انہیں واپس دلوائی۔ مضاربہ کمپنیوں کے نام پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے نام پر دھوکا دیا گیا۔ اس پر بھی نیب نے کارروائی کی اور لوگوں کو انکی کچھ نہ کچھ رقوم واپس ملیں۔ اگر ترمیمی قانون منظور ہوگیا تو نیب ایسے کسی فراڈ کے خلاف کارروائی نہیں کرسکے گا۔ کہا جارہا ہے کہ دیگر سرکاری ادارے جیسے اسٹیٹ بنک آف پاکستان‘ سکیورٹی ایکسچینج کمیشن وغیرہ کاروائی کرسکیں گے۔ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ ان اداروں نے لوگوں کو کبھی فراڈیوں سے تحفظ نہیں دیا۔ اس ملک میں1990ء کی دہائی کے شروع میںاٹھارہ ارب روپے مالیت کا کوآپریٹو اسکینڈل ہوا تھا ۔ یہ سوسائٹیاں بلا روک ٹوک غیر قانونی بنکاری کررہی تھیں۔ اس زمانے کے اٹھارہ ارب روپے آج کے دور میںدو سو ارب روپے سے زیادہ بنتے ہیں۔اسٹیٹ بنک ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے میں ناکام رہا تھا۔ بڑے بڑے سیاستدان ان سوسائیٹیوں سے قرضے لینے میں ملوث تھے۔ اسی زمانے میں لاہور کی تاج کمپنی کا اسکینڈل بھی ہوا تھا۔ وہ بھی غیر قانونی بینکاری کررہی تھی جس میں نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے عوام کے اربوں روپے ڈوب گئے تھے۔ سرکاری بنکوں کو سیاستدانوںنے اپنی کمپنیوں اور اپنے بے نامی اداروں کے لیے قرضے لینے کے لیے بے دردی سے لوٹا لیکن کبھی مرکزی بینک نے اعتراض نہیں کیا۔ اب یہ توقع رکھنا کہ نیب کو بے اختیار کرکے دیگر ادارے احتساب کرسکیں گے محض طفل تسلی ہے۔ اسوقت ملک کے اند کتنی ہاؤسنگ سوسائیٹیاں ہیں جو لوگوں سے اربوں‘ کھربوں روپے پلاٹوں کے نام پر لے چکی ہیں لیکن اکثر کے پاس زمین تک نہیں۔ اگر زمین ہے تو اس پر ترقیاتی کاموں کا نام و نشان تک نہیں۔ کسی سرکاری ادارہ نے آج تک اُن پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ ایک نیب کا ادارہ رہ گیا ہے۔ اس کا اختیار بھی ختم کیا جارہا ہے۔حالانکہ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اسے مزید مضبوط کیا جاتا۔ اسکے تفتیش کرنے اور مقدمہ لڑنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاتا۔احتساب عدالتوں کی تعداد بڑھائی جاتی۔ نیب کے قانون میں ترمیم اور احتساب سے جان چھڑانا پاکستان کے حکمران طبقہ کے غالب اکثریت کی خواہش ہے۔ صرف اپوزیشن نہیں بلکہ حکومت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو نیب کے پر کاٹنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں حکمران طبقہ کی غالب اکثریت سر سے پاؤں تک کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے دولت جمع کرنے میں جتی ہوئی ہے۔مالی بددیانتی کو ایک بڑا طبقہ جائز سمجھنے لگا ہے۔ یہ اسکا طرزِ زندگی بن چکا ہے۔ لوگ کرپشن کو گناہ یا بُری بات سمجھتے ہی نہیں۔ احتساب کسی کے مفاد میں نہیں۔ان حالات میں نیب کے قانون میں ترمیم ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔ البتہ وزیراعظم عمران خان اس عمل کا حصہ بنیں گے تو انکی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان ہوگا۔ وہ سادہ لو گ جو اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ انکی حکومت کرپشن کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کرے گی مایوس ہونگے۔