گورننس دعوئوں اور وعدوں سے نہیں‘اہداف کے تعین ،سخت فیصلوں اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کا نام ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے 30نومبر 2021ء کولاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی گورننگ باڈی کے 8ویں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ایل ڈی اے کو عوام دوست ادارہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔انہوں نے ایل ڈی اے میں اصلاحات کر کے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کی بھی بات کی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے بیان اور ایل ڈی اے کی کارکردگی پر نجیب احمد کا شعر صادق آتا ہے: اس دائرہ روشنی و رنگ سے آگے کیا جانئے کس حال میں بستی کے مکیں ہیں وزیر اعلیٰ کے دائرہ روشنی و رنگ سے آگے ایل ڈی اے کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ ایل ڈی اے گزشتہ کئی برس سے لاہور ڈویژن کے لئے ماسٹر پلان بنا رہا ہے، جس کی کاغذی کارروائی ہی مکمل نہیں ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ لاہور ہائی کورٹ میں راوی ریور پراجیکٹ اورغیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیوں کا معاملہ پہنچا یاگیا۔ عدالت کے استفسار پر کہ ایل ڈی اے کے ناک تلے یہ غیر قانونی سوسائٹیاں کیونکر بن رہی ہیں تو ایل ڈی اے حکام نے آئیں بائیں شائیں شروع کر دی جب بات بنتی نہ دکھائی دی تو جس ماسٹر پلان کو حتمی شکل دینے کے لئے وزیر اعلیٰ نے مزید مشاورت کی ہدایت دیتے ہوئے ایک بار پھر ’’کل‘‘ پر ڈال دیا ہے، اسی ماسٹر پلان کے تلے ہی پناہ لی گئی تھی۔ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ایل ڈی اے ماسٹر پلان بنا رہا ہے جس کے بعد یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے گا۔عدالت نے ماسٹر پلان میں تاخیر کی وجہ پوچھی تو ایل ڈی اے کے’’ بڑے صاحب ‘‘ نے تاخیر کی وجہ ایل ڈی اے کے ڈی جیز کے تبادلے بتائی۔ عدالت نے حکومت کو دسمبر 2021ء تک ڈی جی کو تبدیل نہ کرنے کی ہدایت کا حکم دے دیا۔عدالت سے تحفظ ملنے کی دیر تھی کہ ڈی جی ایل ڈی نے ماسٹر پلان کو حتمی شکل دینے کے لئے خود کو اپنے دفتر میں اس حد تک بند کر لیا ہے کہ عام سائل کا ان سے ملنا ناممکن ہو گیا ہے۔سائل اپنے مسائل کے لئے ’’صاحب‘‘ سے ملنا چا ہتے ہیں تو کام کی نوعیت جانے بغیر ان کے سٹاف آفیسر اپوئنٹمنٹ کے نام پر سائل کو انتظار کی سولی پر لٹکا دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ آپ کو وقت مقرر کرنے کے بعد اطلاع کر دی جائے گی۔ اب صاحب کو کام کرنے دیجیے اور ’’انتظار فرمائیے‘‘۔ بڑے صاحب اپنے کام میں اس قدر گم ہیں کہ اپنے ہی ادارے کے معاملات سے بے خبر ہو چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ایل ڈی اے کوعوام دوست ادارہ بنانے اور شہریوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کی جو بات کی ہے یہ کام ’’بڑے صاحب‘‘ نے اپنے ماتحتوں کے ذمہ لگا رکھا ہے اور سائلین سے اپوئنٹمنٹ اپوئنٹمنٹ کاکھیل کھیلا جا رہا ہے۔ڈی جی ایل ڈی اے نے عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کا کام دوسروں پر لوگوں پر چھوڑ دیا مگر یہ بھول گئے کہ لوگوں کے بارے میں احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎ صبح ہوتے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ گٹھڑیاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی ڈی جی ایل ڈی اے کو شاید اس بات کا علم نہ ہو کہ ان کے ادارے میں بھی گٹھڑیاں سر پر اٹھانے والوں کی کمی نہیں۔ ایسے لوگ سہولیات تو فراہم کرتے ہیں مگر ایل ڈی اے کی زمینوں پر قبضہ کرنے میں۔ ڈی جی صاحب نے ابھی پچھلے ہی مہینے ایل ڈی اے ایونیو ون میں ترقیاتی کاموں کا جائزہ لینے کے لئے موقع کا دورہ کیا تھا، جس میں ایل اور کے بلاک میں ترقیاتی کاموں کے آغاز کے بارے میں فیصلے ہوئے۔ کمال تو یہ ہوا کہ ڈی جی کے دورہ کے چند روز بعد ہی ایل بلاک میں جن پلاٹوں کو ایل ڈی اے کلیئر قرار دے کر شہریوں کو نہ صرف الاٹ بلکہ پلاٹوں کا قبضہ بھی دے چکا ہے، ان پر ایک صاحب نے حق ملکیت جتا کر چار دیواری کرنا شروع کر دی۔ اسے اس بلا ک کے الا ٹیوں کی خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی کہ انہوں نے’’ اپنا گھر‘‘ بنانے کے لئے پلاٹ اسی بلاک میں خرید رکھا ہے۔جب ان میں سے ایک کو اپنے پلاٹ پر قبضہ ہوتا نظر آیا تو داد رسی کے لئے ایل ڈی اے آفس پہنچ گیا، جہاں بڑے صاحب تو مصروف تھے داد رسی ممکن نہ تھی، لاچاری میں ہاتھ پائوں مارے تو ڈی ڈی ایل ڈی اے ایونیو ون تک رسائی ممکن ہو سکی۔ ان کو بپتاسنائی تو انہوں نے مہربانی کرتے ہوئے اسٹیٹ اہلکاروں کو موقع پر بھیجا۔انہوں نے رپورٹ دی کہ ایل ڈی اے نے جو زمین شہریوں کو الاٹ کی ہے اس پر قبضہ کرنے والے نے حق ملکیت کا دعوی کر رکھاٰ ہے۔ ایونیو ون کے افسر انچارچ کو محسوس ہوا کہ ایل ڈی اے کا سٹاف ساتھ ملا ہوا ہے انہوں نے سٹاف کو کارروائی کی دھمکی دی اس طرح اگلے دو روز کے بعد ایل ڈی اے نے ایل بلاک میں ناجائز تجاوزات کو تو مسمار کر دیا۔ مگر معاملہ ایک بار پھرایل ڈی اے کے اہلکاروں کی مہربانی سے ممکن ہے عدالتوں تک جائے اور شہریوں کو دھائیوں تک فیصلے کے لئے انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑے۔ اہلکاروں کی ملی بھگت سے سرکاری زمینوں پر قبضے حکومت کے لئے درد سر بن چکے ہیں۔ وزیر اعظم کی ذاتی دلچسپی کے بعد ناجائز قبضے واگزار کروا رہی ہے ۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق صرف لاہور میں 15ہزار ایکڑ سے زائد سرکاری زمین پر مافیاز کا قبضہ ہے، جس میں حکومت تما م تر کوشش کے باوجود اب تک 3ہزار ایکڑ سے غیر قانونی قبضہ ختم کروانے میں کامیاب ہو سکی ہے ۔اس سست روی کی وجہ بھی سرکاری اہلکار ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے اصلاحات کر کے شہریوں کو مزید سہولت دینے کی بات کی ہے توکیا متاثرین ایل ڈی اے یہ امید رکھیں کہ وزیر اعلیٰ کی اصلاحات میں شہریوں کے پلاٹوں کے تحفظ اور بروقت ترقیاتی کام بھی شامل ہوں گے؟ شہر ی امید نہ رکھیں تو کر بھی کیا سکتے ہیں شاید ان عام شہریوں کے لئے ہی رئوف خیر نے کہا ہے: ہم اپنا گریباں چاک کرتے ہیں ہمارا بس ہی تو سرکار پر نہیں چلتا