پاکستان میں ایک ایسا طبقہ وجود میں آ گیا ہے کہ خطے میں کچھ بھی ہو، اس نے اپنے ہی ملک کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوتا ہے اور اس کے ہاں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ جب جہاں جدھر اور جس کے ساتھ بھی کوئی مسئلہ ہو گا،الزام پاکستان ہی کو دیا جائے گا۔افغانستان ہی کے معاملے کو لے لیجیے۔ اس قوم پرست طبقے کا بیانیہ بڑا واضح ہے کہ سارے مسائل کا ذمہ دار پاکستان ہے ۔ حتی کہ اگر پاکستان میں ناجائز مقیم لاکھوں افغان باشندوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہو تو یہ طبقہ اس میں پاکستان پر تنقید شروع کر دیتا ہے۔ اس کے خیال میں دنیا کے سات براعظموں میں کہیں بھی کچھ ہوتا ہے ،تو اس کا الزام پاکستان پر عائد کرنا ہے۔چنانچہ اس کی مبلغ دانش یہ ہے کہ افغانستان کے حالات کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ افغانستان نے یہاں کیا کچھ کیا، قوم پرست کیسے بروئے کار آئے اور بھارت کا کیا کردار رہا، اس کا نومولود مورخین کی تاریخ میں کہیں کوئی ذکر نہیں۔ چنانچہ اس تاریخ کے طالب آخری تجزیے میں ملامتی مورخ بن جاتے ہیں۔ تاریخ کو درست تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ افغان جہاد کے دورانیے کے علاوہ ہر دور میں پاکستان کو افغان حکومتوں کی سازشوں کا سامنا رہا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان پہلے دن سے پاکستان کی سلامتی کے درپے رہا۔قیام پاکستان کو حقیقت بنتے دیکھا تو تب کے وزیر اعظم ہاشم خان کی سرپرستی میں پشتون زلمے قائم کر دی گئی اور طے کیا گیا پاکستان بنتے ہی یہ زلمے گڑ بڑ پھیلائے اور افغان فوج پاکستان پر حملہ کر دے۔پشتون تحریک کے سید جمال شاہ کے مطابق اس خفیہ میٹنگ میں افغان چیف آف سٹاف سردار داؤد،ان کے چچا وزیر دفاع سردار شاہ محمود اور ایک پاکستانی سیاسی رہنما شریک تھے۔افغان بادشاہ ظاہر شاہ نے لوئی جرگہ میں پاکستان کے خلاف تقریر کی۔بھارت میں افغانستان کے سفیر سردار نجیب اللہ نے کہا: بس آج کل میں قبائلی عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی مرکزی اسمبلی کا انتخاب کر کے حکومت قائم کر لیں گے۔کیمبل جانسن کی ڈائری کا مطالعہ بتاتاہے کہ پشتونستان کے تصور کے پیچھے اولف کیرو اور گاندھی دونوں تھے۔ چودھری محمد علی نے بھی بعد میں یہی انکشاف کیا کہ یہ نعرہ ہی گاندھی نے دیا تھا اور اس کا مقصد نئی ریاست پاکستان کو ناکام کرنا تھا۔ وزیر اعظم داؤد خان نے تو پاکستان میں بغاوت کے لیے باقاعدہ ایک وزارت قائم کی اور اس کا قلمدان خود سنبھالا۔ پاکستان کے سفارت خانوں پر افغانستان میں حملے کیے گئے اور وہاں لہراتے پاکستان کے پرچم اتار کر پشتونستان کے پرچم لگا دیے گئے۔ افغانستان کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ کیا ظاہر شاہ کے وزیر اعظم دائود خان نے اپنے کزن بادشاہ کو معزول کیا تھا تو اس کے پیچھے بھی پاکستان تھا؟ یہی دائود خان جو افغانستان کے پہلے صدر تھے جب کمیونسٹ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھوں معزول اور قتل ہوئے اور ان کی لاش 30 سال بعد جا کر ملی تو کیا،اس کا ذمہ دار بھی پاکستان تھا؟داودکے بعد حکومت سنبھالنے والے کمیونسٹ رہنما نور محمد ترکئی کو ایک ہی سال بعد جب منہ پر تکیہ رکھ کر قتل کر دیا گیا، تو کیا اس کے پیچھے بھی پاکستان تھا؟ترکئی کو قتل کروانے والے حفیظ اللہ امین جب صرف 104 دنوں کی حکومت کے مزے لوٹ کر قتل ہوئے تو کیا یہ بھی پاکستان نے کرایا تھا؟یہ سب تو طالبان نہ تھے۔ یہ تو سب کے سب کمیونسٹ جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لوگ تھے، جو ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے اور اقتدار پر قابض ہوتے رہے؟ افغانستان کا مسئلہ بنیادی طور پر داخلی ہے۔ظاہر شاہ سے لے کر اب تک یہاں مرکزیت قائم ہی نہیں ہو سکی۔ یہاں قبائل ہیں،مسلح ہیں۔ لسانی اور علاقائی عصبیتیں ہیں۔یہ وار لارڈ ز کا معاشرہ ہے جو ایک دوسرے کا وجود تسلیم نہیں کر سکتے۔یہ صرف اس کی مرکزیت میں رہ سکتے ہیں، جو طاقتور ہو۔اس میں پاکستان کا کیا قصور؟ کیا طالبان کو پاکستان حکومت میں لایا؟ظاہر ہے کہ وہ خود آئے اور ان کے ساتھ دوحہ معاہدہ پاکستان نے نہیں امریکہ نے کیا۔ قوم پرستوں کو کوئی شکوہ ہے تو اس کا اظہار امریکہ سے کیوں نہیں کرتے؟ سٹریٹیجک ڈیپتھ کے تصور کا بھی بعض حلقوں کی جانب سے مذاق اڑایا تھا۔معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حضرات کو سٹریٹیجک ڈیپتھ کے تصور کا سرے سے کوئی علم ہی نہیں۔اس کا مطلب ہر گز افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں۔اس کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے محل وقوع کا جائزہ لینا ہو گا۔پاکستان ایک مستطیل میں پھیلا ہے جس کی لمبائی زیادہ مگر چوڑائی کم ہے۔ جنوبی کونے میں سر کریک کے ڈیلٹا سے لے کر شمالی کونے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر تک بھارت بیٹھا ہے، جس کے ساتھ پاکستان کی سرحد قریب 2912 کلومیٹر ہے۔ دوسری جانب رباط جعلی سے لے کر واخان تک افغانستان ہے جس کے ساتھ پاکستان کی سرحد 2640 کلومیٹر طویل ہے۔ اب اگر بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی دشمن ہو جائے تو پاکستان ان دونوں کے بیچ میں سینڈوچ بن جائے، جس کے مشرق میں تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر بھی دشمن ہو اور مغرب میں ڈھائی ہزار کلومیٹر سرحد پر بھی دشمن بیٹھا ہو۔ اس’سٹریٹیجک سینڈ وچ‘ بننے سے بچنے کے لیے پاکستان ایک دوست افغانستان چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ وہاں بھارت نواز حکومت نہیں بلکہ پاکستان دوست حکومت ہو۔ یہ پاکستان کا ’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کا تصور ہے اور ایک منطقی تصور ہے۔چند سال پہلے یہ عالم تھا کہ پاکستان کو افغان سرحد کے ساتھ اپنی تین سٹرائیکنگ کورز لگانی پڑی تھیں۔ ادھر ہمارے تعلقات خراب ہوتے ہیں، تو اس کا فائدہ بھارت اٹھائے گا۔ پاکستان کی سٹریٹیجک ڈیپتھ کے ناقدین کبھی یہ نہی بتاتے کہ بھارت اتنی دورآ کر جو افغانستان کے معاملات میں گھسا رہا تو یہ کون سی ڈیپتھ تھی؟ پاکستان دوستی چاہتا ہے مگر دوستی کا یہ مطلب یقینا نہیں ہوتا کہ اپنی حیثیت سے بڑا بوجھ اٹھا لیا جائے۔ پاکستان کی معیشت کروڑوں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔یہ ایک جائز بات ہے کہ ایسے لوگووں کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔دنیاکا کون سا ملک ہے جو اپنے داخلی معاملات کو بازیچہ اطفال بناتا ہو۔کیا خود افغانستان میںیہ ممکن ہے کہ کسی اور ملک کے لاکھوں شہری بغیر دستاویزات کے جا کر رہنا شروع کر دیں؟ اب کی تو بات چھوڑدیجیے،ذرا تحریک ہجرت کا احوال پڑھ لیجیے کہ جب برصغیر کو دارالحرب قرار دے کر اکابر علماء نے افغانستان ہجرت کر جانے کا فتوی دیا تو وہاں جانے والوں پر کیا بیتی؟ اگر چہ اس بات کا امکان کم ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے خلاف واقعہ کارروائی ہو سکے گی اور انہیں ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے کیونکہ یہ لوگ ایسے ہی نہیں آ جاتے،سسٹم کے اندر موجود خامیاں خرابیاں مفادات اوور مصلحتیں ان کا دست و بازو بنتی ہیں۔ تاہم ایک قومی ریاست کو یہ حق حاصل ہے بلکہ یہ اس پر فرض ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو واپس ان کے ملک بھیجے۔