ملک میں موجودہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام دہشت گرد نیٹ ورکس کے لیے خود کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کے لیے سازگار حالات کا باعث ہے۔ چونکہ مسلسل سیاسی انتشار مرکزی دھارے کی گفتگو پر حاوی ہے اس لئے دہشت گرد گروہ اپنے نیٹ ورکس کی تنظیم نو میں مصروف ہیں۔گزشتہ ہفتے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے نئی تشکیلات کا اعلان کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گروپ مضبوط ہو رہا ہے۔ اب یہ اپنے بازو پھیلا رہا ہے اور ملک کے مذہبی اور نسلی طور پر کمزور علاقوں میں نئے مرکز قائم کر رہا ہے۔ سلامتی اور قومی ہم آہنگی کے چیلنجوں کو مزید پیچیدہ بنانے کے لیے ملک کے کمزور ترین حصوں کو نشانہ بنانا دہشت گرد گروہ کی حکمت عملی ہے۔ ٹی ٹی پی نے بلوچ اکثریتی علاقے قلات ، مکران اور جنوبی اور شمالی پنجاب کے لیے تین نئے 'انتظامی یونٹس' کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ایک ویب پورٹل 'خراسان ڈائری' کے مطابق ملک میں ٹی ٹی پی کے انتظامی یونٹوں کی تعداد 12 ہو گئی ہے، جن میں سے سات خیبر پختونخوا، ایک گلگت بلتستان اور دو یونٹس بلوچستان اور پنجاب میں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی نے ان فارمیشنز کا اعلان گروپ میں لڑائی کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد کیا۔ کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کے دباؤ کی وجہ سے ان کی صفوں میں مایوسی پھیل رہی ہے، جو ٹی ٹی پی کی حمایت میں اپنے کردار کے حوالے سے پاکستان کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔ ناکافی شواہد دستیاب ہیں کہ افغان طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ درحقیقت کچھ دوسرے اکاؤنٹس کے مطابق، ٹی ٹی پی کے لیے طالبان کی حمایت نہ صرف برقرار ہے بلکہ بڑھ رہی ہے۔ ٹی ٹی پی کی صفوں میں اختلافات کا ایک بڑا ذریعہ دفاتر اور وسائل کی تقسیم سے منسلک ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی سوات کے مفتی برجان گزشتہ سال جنوری میں ایک جھڑپ میں زخمی جبکہ مسلم یار جاں بحق ہوگئے تھے۔ گزشتہ سال مئی میں ایک اور اندرونی جھڑپ میں ٹی ٹی پی سوات چیپٹر کے چند اہم کمانڈر مارے گئے تھے جن میں عثمان، بلال، جنت گل اور حضرت اللہ شامل تھے۔ گزشتہ سال اسی مہینے میں تحریک طالبان باجوڑ کا امیر گوہر اور جون 2022 میں زبر عرف کالا مارا گیا تھا، اسی طرح گزشتہ سال ستمبر میں عسکریت پسند کمانڈر بادشاہ خان اور روشم سمیت چار دیگر مارے گئے تھے۔ اکتوبر 2022 میں ٹی ٹی پی بلوچستان کا کمانڈر بسم اللہ عرف پہلوان مارا گیا۔ لڑائی کے اس طرح کے واقعات حال ہی میں پاکستان اور افغانستان میں بھی رونما ہو رہے ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیںکہ آیا افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کمانڈروں کے اندرونی تنازعات کو حل کرنے اور انہیں متحد کرنے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ القاعدہ ماضی میں کئی بار یہ کام کر چکی ہے۔ دریں اثنا، ٹی ٹی پی کی جانب سے نئے گروپوں کو ضم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ کالعدم گروپ نے گزشتہ ماہ ایک بیان کے ذریعے دعویٰ کیا تھا کہ شمالی وزیرستان سے پاکستانی عسکریت پسندوں کے ایک اور گروپ اور کمانڈر یاسر داوڑ نے ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود سے وفاداری کا عہد کر کے اس گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ کم از کم چار نئے گروپوں نے مبینہ طور پر مارچ 2023 میں ٹی ٹی پی کے ساتھ انضمام کا اعلان کیا۔ یاسر داوڑ گروپ کا یہ تازہ ترین انضمام جولائی 2020 سے ٹی ٹی پی کے ساتھ انضمام کی تعداد 28 تک لے جاتا ہے۔ ٹی ٹی پی نیٹ ورک کی توسیع کے متعدد مضمرات ہیں۔ پنجاب کے جنوبی علاقے کو پہلے ہی عسکریت پسندی کے چیلنجوں کا سامنا تھا۔ مختلف رنگوں کے انتہا پسند گروہ وہاں کام کر رہے ہیں۔ پنجاب کے کچے کے علاقے میں حالیہ آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز کو وہاں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی موجودگی کے شواہد ملے۔تاہم یہ شمالی پنجاب کی تنظیم تھی جس نے اپنے قیام کے بعد حیران کر دیا، شمالی پنجاب ہمیشہ ٹی ٹی پی کے لیے ایک ترجیح رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کا محل وقوع اس کی ایک وجہ ہے لیکن لال مسجد نے بھی ٹی ٹی پی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا اور مسجد میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں سے وفاقی دارالحکومت میں خودکش حملوں کی لہر دوڑ گئی تھی۔ آس پاس کے اضلاع کو مسجد اب بھی متاثر کرتی ہے، اور شمالی پنجاب چیپٹر کے نام میں لال مسجد سے اپنی وابستگی ظاہر کرنے کے لیے ’’غازی‘‘ کا عرف بھی شامل ہے۔ راولپنڈی 2017 سے 2022 تک نسبتاً پرامن دور میں بھی دہشت گرد حملوں سے متاثر رہا۔ بالی اور حاجی گروپوں سمیت ٹی ٹی پی کے بہت سے دھڑے اسلام آباد کے مضافات پر مرکوز رہے۔ عبدالرشید غازی وہاں آپریشن کے دوران مارے گئے۔ وہ ٹی ٹی پی اور ہم خیال گروپوں کے لیے ایک مشہور شخصیت بن گئے ہیں۔ غازی کو جنوبی پنجاب میں سپرد خاک کیا گیا۔ بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی نئی تشکیل ایک اہم پیشرفت ہے کیونکہ صوبے میں گروپ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ پچھلے چند مہینوں سے ریڈار کی زد میں ہے۔ بلوچ علاقوں میں ٹی ٹی پی کے قدموں کے نشانات کا اس وقت پتہ چلا جب ایک مقامی بلوچ جہادی گروپ، جس کی قیادت مزار بلوچ کرتا ہے، مکران، بلوچستان سے، ٹی ٹی پی میں شامل ہوا۔ بعد ازاں قلات اور کوئٹہ سے دو دیگر گروپوں نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی جن کی قیادت اکرم بلوچ اور عاصم بلوچ کررہے تھے۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان گروپوں میں سے ہر ایک کے کتنے ارکان یا عسکریت پسند ہیں، لیکن پھر بھی یہ سکیورٹی فورسز اور حکومت کے لیے ایک تشویشناک پیشرفت ہونی چاہیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروپ اپنی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے، جو بلاشبہ ان علاقوں میں اپنی آپریشنل صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا جہاں یہ نئے انضمام شدہ گروپ قائم ہیں۔ کوئٹہ اور پختون پٹی کے اندر اور باہر سکیورٹی فورسز ٹی ٹی پی کے خلاف کامیاب آپریشن کر رہی ہیں۔ تاہم شورش سے متاثرہ بلوچ علاقوں میں گروپ کو پھیلانا ان کے کام کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔ بلوچ علاقوں پر قبضہ کرنا ٹی ٹی پی کی اعلان کردہ پالیسی ہے کیونکہ گروپ کا خیال ہے کہ یہ علاقہ نئی بھرتیوں کے لیے موزوں ہے، خاص طور پر دینی مدارس کے نوجوانوں سے، جن کے بلوچ باغیوں میں شامل نہ ہونے کی سیاسی اور نظریاتی وجوہات ہیں۔ اگرچہ بلوچ باغیوں اور ٹی ٹی پی کے درمیان ممکنہ گٹھ جوڑ کے بارے میں اکثر اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں لیکن اس مشاہدے کی تائید کے لیے مزید شواہد کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے یہ ابھرتے ہوئے رجحانات صرف کے پی اور سابقہ قبائلی علاقوں میں طالبان عسکریت پسندی اور بلوچستان میں بلوچ قوم پرست بغاوت کے حوالے سے پاکستان کے مسلسل سکیورٹی چیلنجوں میں اضافہ کریں گے۔ لمبے عرصے تک عدم تحفظ، عسکریت پسندی اور تشدد کا ایسا ماحول سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لیے بھی سنگین خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔