کراچی (نیٹ نیوز)سندھ اسمبلی میں تنزیلہ شیدی یہ خواب لیکر داخل ہوں گی کہ آئندہ ان کی آنے والی نسلوں کے لیے شیدی لفظ قابل توہین نہیں بلکہ قابل عزت و احترام سمجھا جائے گا۔تنزیلہ شیدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد وہ پہلی سیاہ فام خاتون ہیں جو اسمبلی میں قدم رکھیں گی۔انہوں نے کہا کہ جس طرح کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا بلاول بھٹو نے ہمیں دریافت کیا ہے ،تنزیلہ شیدی کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز ہیں، وہ ماتلی سے کونسلر رہی ہیں جبکہ بعد میں انہیں میونسپل چیئرمین کے لیے نامزد کیا گیا، بقول تنزیلہ جب وہ کونسلر منتخب ہوئیں تو یہ کہا گیا کہ یہ ووٹ اسی طرف جائے گا جہاں طاقت کا مرکز ہوگا کیونکہ یہ ایک شیدی کا ووٹ ہے ۔جب مجھے میونسپل چیئرپرسن کے لیے نامزد کیا گیا تو ایک مخصوص سوچ کا یہ کہنا تھا یہ عورتیں جو صرف برتن مانجھنے اور جھاڑو دینے کے لیے ہیں یہ چیئرپرسن بنیں گی یہ تو ہمارے غلام رہے ہیں ہماری قیادت کیسے کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ پاکستان میں شیدی بھی رہتے ہیں۔شیدی کمیونٹی کے استاد صدیق مسافر شیدی نے اپنی کتاب غلامی اور آزادی کے عبرت ناک نظارے میں شیدیوں کی کھوج لگانے کی کوشش کی، انہیں ان کے والد گلاب نے بتایا تھا کہ وہ کہاں سے اور کیسے یہاں پہنچے ۔ تنزیلہ کے مطابق ان کے والد عبدالباری ایڈووکیٹ نے کوشش کی تھی کہ وہ پتہ لگا سکیں کہ وہ کہاں سے آئے تھے آخر میں تمام اس بات پر متفق تھے کہ انہیں تنزانیہ سے لایا گیا تھا۔تنزیلا کے خاندان نے خود کو آبائی دیس افریقہ سے جوڑے رکھا ہے ۔ان کے والد سندھ یونیورسٹی جاکر افریقی طلبہ سے ملتے تھے جبکہ بعد میں ان کی بڑی بہن کی شادی تنزانیا کے پونزا قبیلے میں کی گئی۔اس شادی پر شیدی محلے میں پاکستانی شیدی اور افریقن شیدی موگو ( ڈرم بیٹ) پر اس طرح ڈانس کر رہے تھے کہ شناخت کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ پاکستان کے شیدی کونسے ہیں اور افریقی شیدی کونسے ہیں۔ اسی طرح دوسری بہن کی شادی گھانا میں سپونگ قبیلے میں ہوئی۔