جھنگ کے عظیم گلوکار طالب حسین درد کی وفات کے دوسرے دن پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان ملتان کی معروف فوک سنگر نسیم سیمی مورخہ 18 مارچ 2019ء شام ساڑھے چھ بجے نشتر ہسپتال کے وارڈ نمبر 1 میں وفات پا گئیں ۔ نسیم سیمی کی وفات پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے کہا کہ نسیم سیمی کی وفات پر بہت دکھ اور افسوس ہوا ہے کہ وہ بہت اچھی فوک سنگر تھیں اور ملک کا اثاثہ تھیں۔وزیر اعلیٰ صاحب کی تعزیت کا شکریہ لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ حکومت کی طرف سے نسیم سیمی کے علاج پر توجہ دی جاتی اور ان کے فن کی قدر افزائی کیلئے ایوارڈ اور مالی امداد کا اعلان ہوتا۔ سرائیکی لوک سانجھ کے صدر عاشق بزدار نے بجا اور درست کہا ہے کہ پہلے ہم دوسرے حکمرانوں کو دوش دیتے تھے مگر اب جبکہ مکمل اقتدار وسیب کے پاس ہے تو بتایا جائے کہ کس کو دوش دیا جائے؟ اس موقع پر عاشق بزدار نے نسیم سیمی کے علاج سے بے عتنائی برتنے پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو یاد دلایا کہ وہ وسیب کے مینڈیٹ سے ہی برسراقتدار آئے ہیں کسی اور کا نہیں تو کم از کم اپنے مینڈیٹ کا ہی بھرم رکھ لیں۔ نسیم سیمی کے بارے میں ابھی کالم لکھ ہی رہا ہوں تو خبر رساں ایجنسی یو پی آئی کی طرف سے جاری کی جانیوالی خبر کے مطابق وفات پانیوالی نسیم سیمی کے گھر پر غنڈوں نے دھاوا بول دیا ۔ ریڈیو پاکستان ملتان کی معروف گلوکارہ نسیم سیمی جس کی وفات پر وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے تعزیتی بیان میں اُسے ملک و قوم کا سرمایہ قرار دیا ہے، کی وفات کے دوسرے دن دس پندرہ نامعلوم سماج دشمن عناصر نسیم سیمی کی آبائی بستی قادر آباد چدھڑ موڑ تحصیل شجاع آباد پہنچ گئے اور نسیم سیمی کی غریب بہنوں اور بھائیوں کے گھروں میں داخل ہو کر اسلحہ لہرا کر دھمکی دی کہ نسیم سیمی کے بیٹے عمران فیصل کو پیش کرو، ہم نہیں چھوڑیں گے، اور سیدھے فائر ماریں گے، سماج دشمن عناصر نے مستورات کی بے حرمتی کی، چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا،بستی کو گھیرے میں لیکر لوگوں کو محصور کر لیا گیا۔ نسیم سیمی کے شاگرد سرائیکی گلوکار مقبول کھرل پر تشدد ہوا، 15 پر کال گئی تو پولیس فوراً پہنچی اور نسیم سیمی کے اہل خانہ کو غنڈہ گردی کرنے والوں کے نرغے سے نکالاکچھ بھاگ گئے اور باقی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ سرائیکی ادبی ثقافتی تنظیموں نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار، وزیر اعظم عمران خان، آئی جی پنجاب، آر پی او، ڈی پی اوسے اپیل کی ہے کہ ملک کی مایہ ناز گلوکارہ کے غریب رشتہ داروں کے ساتھ ہونیوالے ظلم کا ازالہ کیا جائے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والے ملزمان پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کرکے ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔نسیم سیمی ایک عرصے سے علیل تھیں ۔ ادبی و ثقافتی تنظیموں کی طرف سے سرکاری خرچ پر ان کے علاج اور مالی امداد کیلئے مسلسل اپیلیں کی جاتی رہیں مگر حکومت نے توجہ نہ دی ۔ نسیم سیمی دل اور یرقان کے مرض میں مبتلا تھیں ‘ ان کی عمر 48 سال تھی ۔ان کے والد کا نام ملک عاشق اور استاد کا نام رفیق حیدری تھا ۔ لواحقین میں ایک بیٹا محمد عمران ، دو بہنیں اور تین غریب بھائی شامل ہیں ۔ نسیم سیمی 1970ء میں بستی داد شجاع آباد میں پیدا ہوئیں ۔ اپنی زندگی میں ریڈیو پاکستان ملتان سے انٹرویو کے دوران نسیم سیمی نے بتایا کہ میری ممانی شمو بی بی شادیوں پر سہرے گاتی تو میں بھی اس کے ساتھ سہرے گاتی ، یہیں سے میری گائیکی کا آغاز ہوا۔ پھر استاد نصرت فتح علی خان گھرانے کے فرد استاد رفیق حیدری ملتان آئے تو میں نے باقاعدہ ان سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور جب ریڈیو پاکستان ملتان سے میرا آڈیشن ہوا تو ملک عزیز الرحمن صاحب میرا آڈیشن لے رہے تھے ، میں نے ڈوہڑے گائے تو شیشے کی دوسری طرف میں نے دیکھا کہ وہ زار و قطار رو رہے تھے اور مجھے اشارہ کر کے کہا کہ تم گاتی رہو ۔ نسیم سیمی کی نماز جنازہ گزشتہ روز چدھڑ موڑ شجاع آباد میں ادا کی گئی ‘اس موقع پر مرحومہ کے اکلوتے بیٹے محمد عمران سے وسیب کے لوگوں نے گلے لگ کر اظہارِ تعزیت کیا ، بعد میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ مرحومہ کو ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔مرحومہ کی روح کو ایصالِ ثواب کیلئے قل خوانی 22 مارچ 2019ء جمعتہ المبارک صبح 9 بجے ادا کی جائے گی ۔ نماز جنازہ میں راقم کے علاوہ معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی ‘ سرائیکی رہنما ؤںملک اللہ نواز وینس ‘ شریف خان لشار ی ‘ مختار خان لنگاہ ‘ ملک عباس ملہنْاس ‘ ماسٹر مبین جھمٹ ‘ سرائیکی گلوکاروں شہزادہ آصف علی گیلانی ‘ ساجد علی ملتانی ‘ مقبول کھرل سمیت وسیب کے شاعروں ‘ ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی ۔ اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں کو تاثرات ریکارڈ کرائے۔ مرحومہ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے شاکر شجاع آبادی نے کہا کہ میرے کلام کو شہرت دینے میں نسیم سیمی کا بہت ہاتھ ہے ۔ وہ مجھ سے بہت عقیدت رکھتی تھی اور میرا بزرگوں کی طرح احترام کرتی تھی ۔ شہزادہ آصف گیلانی نے کہا کہ سرائیکی ڈوہڑے کی گائیکی میں اس کا کوئی ثانی نہیں ‘ خصوصاً خواتین سنگر میں ان کا مقام نہایت ہی بلند و بالا تھا ۔ سرائیکی سنگر ساجد ملتانی نے کہا کہ نسیم سیمی درویش صفت سنگر تھیں‘ طالب درد اور نسیم سیمی کی وفات کو ہم کبھی نہیں بُھلا سکیں گے ۔ سرائیکی رہنماؤں نے اپنے تاثرات میں کہا کہ نسیم سیمی گزشتہ دو سالوں سے علیل تھیں ‘ ہزار اپیلوں کے باوجود ن لیگ کی حکومت نے توجہ نہ دی مگر موجودہ حکومت کو بر سر اقتدار آئے چھ ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے ‘ یہ ن لیگ سے بھی وسیب کیلئے ازاں بد تر ثابت ہوئے ہیں ‘ ان کی ترجیحات میں وسیب شامل ہی نہیں ۔ رہنماؤں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج ریڈیو ٹیلی ویژن کا کوئی نمائندہ جنازہ میں شریک نہیں اورنہ ہی ن لیگ پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کا کوئی سیاسی رہنما شریک ہوا ہے ‘ حکومت کی طرف سے بھی کسی نمائندے نے شرکت نہ کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ وسیب کے خیر خواہ نہیں اور ان کی نظروں میں وسیب کے ادیبوں ‘ شاعروں اور فنکاروں کی کوئی قدر نہیں ۔ ہم نے اس وسیب دشمن رویے کے خلاف جہاد کرنا ہے ۔رہنماؤں نے کہا کہ آج اگر ہمارا اپنا صوبہ ہوتا تو ہمارے شاعر ‘ گلوکار اور فنکار اس طرح سسک سسک کر نہ مرتے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں صوبہ دیا جائے تاکہ وسیب کے لوگ اپنی تہذیب ‘ ثقافت کے محافظوں کی خود حفاظت کر سکیں ۔ سرائیکی رہنما اجالا لنگاہ اور سرائیکی سنگر ثوبیہ ملک نے خواتین کے ساتھ تعزیت کی اور مرحومہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ نسیم سیمی کو سب سے زیادہ شہرت شاکر شجاع آبادی کے ڈوہڑوں سے ملی۔ ان کی 50 کے لگ بھگ آڈیو کیسٹیں ریلیز ہوئیں ۔ ان کے مشہور گیتوں میں ’’ نہ ونج وو یار ڈاڈھی مونجھ آندی اے ، واہ وو سجن تیڈے وعدے ، میں تیڈی ملیر تھیندی ہاں ،وچھڑے یاد جو آئے ہوسن ‘‘ اور بہت سے گیت شامل تھے ۔ نسیم سیمی ان پڑھ تھیں مگر اس کو گیت یاد کرنے کا ملکہ حاصل تھا ۔ نسیم سیمی نے ہزاروں گیت اور ڈوہڑے گا کر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں شہرت حاصل کی ۔ ان کو وسیب کی مختلف تنظیموں کی طرف سے بہت سے اعزازات اور ایوارڈز حاصل ہوئے ۔ نسیم سیمی کی وفات وسیب کیلئے نہایت صدمے کا باعث ہے ، اسی طرح راگ جوگ کے بے تاج بادشاہ ، طالب حسین درد آف جھنگ کی وفات پر جتنے دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے ۔نسیم سیمی ایک چراغ کی مانند تھی جو بجھ گیا۔ ان جیسے فنکار روز روز نہیں بلکہ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں ، وسیب کے دو بڑے گلوکاروں کی وفات سے اتنا بڑا خلاء پیدا ہوا جو صدیوں تک پُر نہ کیا جا سکے گا۔ اس موقع پر حکومت کی بے حسی قابل افسوس ہے ، آج اگر سرائیکی صوبہ ہوتا تو اتنے بڑے فنکار بے بسی کی موت نہ مرتے ۔ وسیب کے لوگوں کو بھرپور اقتدار میں ہونے کے باوجود وسیب سے بے اعتنائی قابل افسوس ہی نہیں قابل گرفت بھی ہے۔