پھول خوشبو کو ہوا میں ذرا گہرا لکھنا سات رنگوں میں کبھی اس کا سراپا لکھنا تتلیاں رنگ لئے پھرتی ہیں چاروں جانب کتنا مشکل ہے بہاروں کا قصیدہ لکھنا قدرت تو مہربان ہے آپ ایک نظر فطرت پر ڈالیں تو سہی ایک الطفات اپنے اردگرد کی جانب اور ذرا سی توجہ چاروں اور پھیلی وسعتوں پر’’میں ہوں‘ پانی کا سفر اور مسافت لمبی چشم حیراں تو اسے ایک جزیرہ لکھنا ،پھر رنگ خوشبو اور روشنی‘ سانس لیتی صبح اور بازو پھیلاتی شام۔ اچھا لگتا ہے مجھے گل تو بجا لگتا ہے وہ بھی میری ہی طرح محو دعا لگتا ہے۔ وہ جو کیٹس نے کہا تھا سچائی خوبصورتی ہے اور خوبصورتی سچائی۔ ہم اب تک اس اظہار کے سحر میں تھے ایسے ہی جب اللہ کے کلام کو دیکھا تو میں ششدر رہ گیا چودہ سو سال پہلے یہ تنزیل ہوئی مفہوم اس کا کچھ اس طرح ہے کہتم کیا سمجھتے ہو کہ ہم نے کائنات کو بس یونہی بے مقصد پیدا کر دیا نہیں نہیں اس میں باقاعدہ ایک منصوبہ ہے ایک تنظیم ہے اور ایک رکھ رکھائو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اس میں خوبصورتی افادیت اور فیضان ہے یہ تو جمالیات اور کمالیات کا مجموعہ ہے۔اور یہ حق اور سچ ہے یعنی یہ خوبصورتیاں سچ ہی کا دوسرا نام ہیں۔ سچ ہوتا ہی خوبصورت ہے۔ باطل کی قسمت میں تو رسوائی ہی لکھی ہوئی ہے یہ تو شیطان اسے مزین کرتا یا کر کے دکھاتا ہے میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ جو فطرت میں گہرائیاں اور پہنائیاں ہیں ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے کچھ نہیں تو آپ توجہ کر کے دیکھیں کہ قریب ایستادہ پیڑسبز پتوں میں ہی کتنے شیڈزہیں ذرا بھی یکسانیت نہیں کہ دل بھر جائے باقی کی بو قلمونی آپ کے سامنے ہے۔ کیا پرند اور کیا چرند سب رونق لگائے ہوئے ہیں۔ بحروبر کو دیکھیں خشک و تر پر نظر کریں سمندر جنگل۔ اقبال یاد آئے: پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن پھول ہیں صحرا ہیں یا پریاں قطار اندر قطار اودھے اودھے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن یہ فطرت کی رنگا رنگی انگریزی کے شاعروں میں بھی کہ جنہوں نے فطرت کی طرف نگاہ کی ورڈز ورتھ اور کیٹس کے ہاں کیا کچھ ہے۔ مگر کس کے پاس وقت کہ کوہساروں کی چوٹی کو چھوتا ہوا پورا چاند دیکھے پھولوں کی مہکار اور پرندوں کی چہکار سے لطف اٹھائے۔ بلبل اور کوئل کی آواز پر کان دھرے اور انہیں دیکھنے کی جستجو کرے اس نائٹنگ گھیل کی حسرت کرے۔ جس نے خشک پودے کے کانٹے کو سینے میں اتار کر اپنے لہو سے شاخ پر گلاب کھلا دیا تھا۔ جن دنوں مجھے فارسی پڑھنے کا شوق چڑآیا تھا تو مجھے دو شعر بہت پسند تھے حافظ شیرازی فرماتے ہیں: صبح دم مرغ چمن پاگل نو خواستہ گفت تاز کم کن کہ این باغ بسے چون تو شگفت کل نجندید کہ از راست نہ رغیم ولے ہیچ عاشق سخن سخت بہ معشوق نہ گفت صبح کے وقت بلبل نے نئے کھلنے والے پھول سے کہا اتنا بھی ناز نہ کر کے تیرے جیسے اس چمن میںکئی کھلے اور مرجھا گئے۔پھول بلبل کی بات پر ہنسا کہ اسے بلبل کی سچی بات کا دکھ نہیں لیکن کوئی عاشق اپنے معشوق سے ایسے بات کرتا اتنی تلخی اسے زیب نہیں دیتی۔ یہ قدرت کے فیصلے ہیں کہ پھول کھلتے ہیں لوگ ملتے ہیں اور پت جھڑ میں جو پھول مرجھا جاتے ہیں وہ بہاروں کے آنے سے کھلتے نہیں لیکن ہر موسم اپنے پھول تو لاتا ہے۔ خزاں میں گل ملال کھلتا ہے وہی کے سنے ہوئے نغمے پیارے اور خوش کن ہوتے ہیں اور جو ابھی سنے نہیں شاید ان سے بھی زیادہ دلفریب ہوتے ہیں۔ بہرحال وہی جو کیٹس نے کہا کہ خوبصورت شے ہمیشہ کے لئے ذھن میں رہتی ہے۔ بات پھر وہی آتی ہے کہ کائنات کا خالق وہ مالک کہتا ہے کہ دیکھ آسمان کی طرف تمہیں کوئی رخنہ یا شگاف نظر آتا ہے ایک مرتبہ پھر نظر کر اور غور کر کہ کوئی سقم نہیں ہے تمہاری نظر تھک ہار کر لوٹ آئے گی۔ میں مفہوم پر اکتفا کرتا ہوں پھر اللہ بتاتا ہے کہ دیکھ قریبی آسمان کو کیسے چراغوں سے سجایا گیا ہے یعنی یہ پیارے پیارے ستارے جو ٹوٹتے ہیں تو شیطان کو جا لگتے ہیں سب اشیا انسان کی خدمت کے لئے ہی تو پیدا کی گئی ہیں ان میں نشانیاں ہیں صاحبان بصیرت کے لئے حکمت و دانائی ہے تو یہ سب کچھ وا ہو جاتا ہے زاہد خشک کو چھوڑیں زندگی کے شب و روز میں ایک خوبصورتی ضروری ہے حتیٰ کہ آپ کی گفتگو میں بھی نرمی سلیقہ اور قرینہ ضروری ہے دوسرے کی عزت نفس‘ ادب اور احترام سب خوبصورتیاں ہیں بات کرتے ہوئے آپ خود پیارے لگیں اصل میں سچ اور حق کے ابلاغ میں ہم خود رکاوٹ ہیں۔ میرے پیارے قارئین!آج میرا دل چاہ رہا تھا کہ آپ جیسے خوبصورت لوگوں سے پیاری پیاری باتیں کی جائیں حق اور سچ خوبصورت ہے کہ اس کا انجام مثبت ہے اچھائی اور برائی آخر کار اپنے انجام کو پہنچنی ہیں خود خدا کہتا ہے کہ جب حق آ گیا تو باطل مٹ گیا باطل مٹ جانے والا ہی ہے۔یہ باطل جو ہے یہ جھاگ کی طرح جب پانی جھاگ پیدا کرتا ہے تو یہ ختم ہو جاتی ہے باقی کام کی چیز زمین کا حصہ بنتی ہے۔جھاگ مفید نہیں ہوتی کہ وہ ختم ہو جاتی ہے جس طرح بہ ظاہر کی خوبصورتیاں ہیں جن کا میں نے تذکرہ کیا اسی طرح اعمال بھی اپنی جگہ خوبصورتیاں رکھتے ہیں آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ بعض لوگوں سے بات کر کے آپ آسودگی محسوس کرتے ہیں ان کے پاس بیٹھ کر آپ کو اچھا لگتا ہے جبکہ بعض کے شر سے ہی آپ دور بھاگتے ہیں۔پھر اقبال سامنے آ گئے ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم۔ رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن۔ کہنے کا مطلب یہی کہ زندگی اور اس سے جڑی ہوئی کائنات عبث نہیں اس کا تعلق براہ راست ہم سے ہے وہ توجہ مانگتی ہے ایک اہتمام ہے رات ہے تو آپ کے آرام کے لئے، دن ہے تو آپ کے معاش کے لئے جلیل عالی صاحب کا ایک شعر: خبر تہوں کی کہاں بس اسی پہ ہیں نازاں یہ سطح موج گماں چند بلبلے تو کھلے