وہ کراچی اب کہاں جس کے دن رنگوں سے بھرے اور راتیں روشنیوں سے منور ہوتی تھیں۔وہ کراچی تو ساحل پر چہل قدمی جیسا تھا مگر اب وہ ساحلی شہر ہر طرح سے ایک سمندر بن چکا ہے۔انسانوں کا سمندر،ٹریفک کا سمندر اور جرائم کا سمندر۔ جس کراچی میں کبھی خوبصورت لوگ خوبصورت کتابیں خریدتے نظر آتے تھے، اب وہاں کپڑوں اور جوتوں کی دکانوں پر رش لگا رہتا ہے۔ کس قدر حسین ہوا کرتا تھا کراچی کا آسمان ،مگراب بلند عمارتوں نے اس آسمان کو چھپا لیا ہے۔ اب کراچی میں وہ مارو ماری اور قتل و غارت نہیں ہے مگر جس عذاب سے یہ شہر گذرا ہے اس تشدد کے نشان اب بھی اس شہر کے تن اور من پر موجود ہیں۔ایک شہر کس طرح بدل جاتا ہے؟ اس سوال پر ہم سے بچھڑ جانے والی ادیبہ؛ شاعرہ اور ناول نگار فہمیدہ ریاض نے کس قدر خوبصورت ناول لکھا۔ اس ناول کا نام ہے کراچی۔ وہ ایک مختصر ناول ہے جب کہ کراچی کے درد کی داستان بہت طویل ہے۔ کراچی ایک اور ناول کا تقاضہ کرتا ہے جس میں بتایا جائے کہ اس شہر کا آرکیٹیکچر اوراس شہر کی پلاننگ ہی تباہ نہیں ہوئی اس شہر کا کلچر بھی ختم ہوگیا۔ کبھی کراچی ادبی سرگرمیوں کا شہر تھا۔ اب بھی اس شہر میں ادبی میلے ہوتے ہیں مگر میلوں میں اور محفل میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ کراچی میں جب مشاعرے ہوتے تھے تو صرف بڑے شُعرا تشریف نہیں لاتے تھے بلکہ باذوق لوگوں کا ایک ہجوم امڈ آتا تھا۔ اب وہ ادبی اور علمی سرگرمیاں کہاں ہیں؟ یہ شہر تو جیسے اپنے ماضی کو بھول چکا ہے۔ حالانکہ وہ ماضی بعید بھی نہیں، وہ ماضی قریب ہے۔ اس ماضی میں کیا کیا نہ تھا۔ اب تو افسوس ہوتا ہے۔ اب کراچی کے زوال پر دل روتا ہے۔ اب کراچی کو صرف سرمایہ فراہم کرنے والا شہر قرار دیا جاتا ہے جب کہ اس شہر میں کبھی علم اور ادب کا جو سرمایہ تھا وہ معاشی سرمائے سے کہیں زیادہ اہم تھا۔کراچی کے لیے افسوس کرنے بیٹھو تو بہت ساری باتیں دل کے گرد گردش کرنے لگتی ہیں۔ ان بہت ساری باتوں میں ایک بات کراچی کی سیاست کے حوالے سے بھی ہے۔ کراچی کی سیاست بھی علم اور ادب کا سنگم تھی۔ وہ وقت گزرے کافی وقت نہیں ہوا جب کراچی میں سیاستدان عالم اور ادیب ہوا کرتے تھے۔ ان کی سیاست صرف اقتدار کے لیے نہیں تھی۔ وہ عزت اور احترام کے لیے سیاست کرتے تھے۔ ان کے لیے سیاست کالا دھن جمع کرنے کا ذریعہ نہ تھی بلکہ وہ دل کی خوشی اور عوامی خدمت کے لیے سیاست کرتے تھے۔ ان کے لیے سیاست بدمعاشی اور غنڈہ گردی نہ تھی۔ ان کے لیے سیاست عبادت تھی۔ یہ وہ دور تھا جب سیاست مکر و فریب نہ تھی۔ اس دور میں کراچی کی سیاست ان دیندار لوگوں کے ہاتھوں میں تھی جن کے دامن پر کبھی کرپشن کا داغ نہ لگا تھا۔ اس دور میں کراچی کے سیاستدانوں کے گھر چھوٹے مگر ان کے دل بڑے ہوتے تھے۔ وہ مہمانوں کو متاثر کرنے کے لیے پرتکلف اور مہنگے کھانوں کا اہتمام نہ کرتے تھے۔ ان کے گھر میں جو پکتا تھا وہ دسترخان پر پیش ہوتا۔ اس کی لذت ناقابل بیان تھی۔ کھانے کے بعد سازشیں نہیں سوچی جاتی تھیں۔ کھانے کے بعد علم اور ادب کی باتیں ہوتی تھی۔ اس دور میں سیاسی رہنمائوں کے گھروں میں نایاب کتابوں کا ذخیرہ ہوتا تھا۔ وہ ایک دوسرے سے کتابوں کے بارے میں معلومات لیتے۔ اس دور میں کراچی کی سیاست، خدمت خلق کا حقیقی نمونہ تھی۔ اس دور میں کراچی کی آبادی بہت کم تھی مگر پھر بھی کراچی کی سیاست میں وہ توانائی اور طاقت تھی کہ جب کراچی میں کوئی سیاسی تحریک اٹھتی تو ملک میں موجود حکومت تبدیل ہوجاتی تھی۔اس دور میں کراچی سیاسی طور پر پاکستان کا رہنما شہر تھا۔ اس شہر میں سیاست بلیک میلنگ سے بچی ہوئی تھی۔ اس دور میں سیاست کے آداب تھے۔ اس دور میں سیاست کے اصول تھے۔ اس دور میں سیاست کا مقصد تھا۔ اس دور میں سیاست اجتماعی بھلائی کے لیے ہوتی تھی۔ اس دور میں سیاست حب الوطنی کا خوبصورت روپ تھی۔ اس دور کی سیاست میں تشدد کا تصور تک نہ تھا۔ اس دور کی سیاست میں کسی لینڈ مافیا کا کوئی کردار نہ تھا۔ اس لیے اس سیاست میں حقیقی طاقت تھی۔ کیوں کہ وہ سیاست پرامن اور پاکیزہ تھی۔ مگر جب کراچی کی سیاست میں قلم اور کتاب کی جگہ کلاشنکوف نے لی تو وہ سیاست خاموش ہوگئی جس سیاست کی وجہ سے یہ شہر صرف ادبی ماحول کا عکس تھا ۔کراچی میں اس سیاست کی وجہ سے جو علمی طاقت پیدا ہوئی اس کا تذکرہ کرنے کے لیے الگ کالم کی ضرورت ہے۔ کراچی میں جب علم اور ادب کی سیاست کو دہشت اور جرم کی سیاست نے شہر کی حدود سے نکال باہر کیا تو کراچی کی فضاؤں میں جلتی ہوئی گاڑیوں کی بو پھیل گئی اور اسٹریٹ کرائم کا کلچر عام ہوگیا۔ کراچی اب تک اس ناقابل تلافی نقصان کے بارے میں نہیں سوچتا۔ کراچی کب سوچے گا کہ اس نے سیاسی حوالے سے کیا کھویا اور کیا پایا؟ کراچی کے شہری اپنے حصے میں آئے نقصان کی تلافی تب کریں گے جب انہیں احساس ہوگا۔ یہ احساس دلانے والی کوئی قوت ہے بھی نہیں ۔ اس وقت جب کراچی کی سڑکوں پر پاک سرزمین پارٹی کے ڈولفن والے جھنڈے لہراتے نظر آتے ہیں تو کبھی ہنسی اور کبھی رونا آتا ہے۔ ہر چیز آگے بڑھتی ہے۔ ہر چیز میں ترقی ہوتی ہے۔ مگر کراچی نے ایسا کون سا جرم کیا ہے کہ اس کے حصے میں سیاسی تباہی آئی ہے۔ حالانکہ کراچی جیسے شہر کو مثالی سیاسی کلچر کا نمونہ پیش کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں کراچی کی اردوبولنے والی آبادی نے برسوں تک ایک ایسے شخص کی قیادت کو قبول کیا جس نے نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان کی سیاست کو جرم سے آلودہ کیا۔ اس نام نہاد لیڈر نے تو کراچی جیسے خوبصورت اور مثالی شہر کو مقتل میں تبدیل کردیا۔ اس شخص کے خلاف اگر یہ شہر مذہب اور مہذب قدروں والی سیاسی قوتوں کا ساتھ رہتا تو یہ شہر اس قدرنقصان سے بچ جاتا۔تاریخ میں ہمیشہ عروج اور زوال کی کہانی چلتی رہتی ہے۔ اگر کراچی کبھی عروج کی علامت تھا اور اب زوال کی مثال بن گیا ہے تو پھر زوال عروج کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ کراچی کے حصے میں جو نقصان آیا ہے اس کی تلافی تب ہوگی جب کراچی اپنی تعلیم یافتہ اور باشعور آبادی کے ساتھ سوچے گا کہ اس نے کہاں راستہ بھولا؟ کراچی کو اس سوچ سے آشنا کرنے کے لیے اہل قلم اور اہل کتاب افراد کا اہم کردار ہے۔ اب کراچی میں پہلے کی طرح خوف کی فضا نہیں ہے مگر اس شہر کو سیاسی بلندی سے ہمکنار کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ مگر وہ محنت بھی تب رنگ لائے گی جب کراچی اپنے سیاسی زوال کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچے گا۔کراچی کو اس بات کا احساس ہونا چاہئیے کہ اس نے کس طرح سیاسی اور معاشرتی بلندی کو کھویا۔اس وقت ہماری ملکی سیاست میں بھی وہ بات نہیں ہے جو ہونی چاہئیے۔ جب کراچی جیسے شہر سیاسی شعور سے محروم ہوجائیں اور وہ اپنی ماضی کے کردار کو فراموش کرسکیں گے تو ملکی سیاست اس عظمت سے کس طرح آشنا ہوگی جو عظمت دولت سے نہیں بلکہ دانائی اور پاکیزہ کردار سے حاصل ہوتی ہے۔ کراچی ایک قافلہ ہے۔ اس قافلے جیسے شہر نے سیاسی سفر میں کیا گنوایا اور کیا حاصل کیا؟ یہ سوال اگر فکر علامہ اقبال کے سامنے پیش کیا جائے تو وہاں سے یہ جواب حاصل ہوگا : ’’وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا‘‘ کاش کراچی حکیم الامت کے ان الفاظ سے اپنی کھوئی ہوئی عظمت تلاش کرنے کی کوشش کرے۔