بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی ) پر شہری آبادی کیخلاف کلسٹر بموں کا استعمال کیا جا رہا ہے، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے مطابق بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر شہری آبادی کو کلسٹر بموں سے نشانہ بنا رہی ہے، بھارتی فوج نے 30 اور 31 جولائی کو آزاد کشمیر کی وادی نیلم میں توپ خانے کے ذریعے کلسٹر ایمونیشن کا استعمال کیا جس کے باعث 4 سالہ بچے سمیت 2 افراد شہید اور 11شدید زخمی ہو گئے۔بھارت نے اب کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کو بھی آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے ذریعے ختم کر دی ہے ۔کشمیری حریت پسند رہنمائوںبزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق، یٰسین ملک اور شبیر شاہ کا کہنا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی تاریخ کا بڑا قتل عام کرنے والا ہے کشمیری مسلمان آخری سانس تک آزادی کی جنگ لڑیں گے۔کشمیر پر مظالم کا سلسلہ آج سے نہیں صدیوں سے جاری ہے ۔ تاریخی پس منظر کے حوالے سے دیکھا جائے تو کشمیر کی تاریخ بہت قدیم ہے، ہندو دور ، اسلامی دور، شاہ میری خاندان، چک خاندان، مغلیہ دورکے ساتھ ساتھ افغان دور، 1747ء میں جب افغانوں نے نادر شاہ درانی کو اپنا بادشاہ مقرر کیا تو اس نے مغلوں سے تمام علاقہ چھین لیا جس میں کشمیر بھی شامل تھا، ان کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1819ء میں کشمیر پر قبضہ کر لیا، سکھوں نے یہاں 27 برس حکومت کی اور ریاست کشمیر میں اتنی لوٹ مار کی گئی کہ اُسے کنگال کر دیا گیا، سکھوں نے دولت کے حصول کے لئے ہر ظلم روا رکھا،گھروں سے مال و دولت کی لوٹ مار کے ساتھ ساتھ عصمت دریوں کے واقعات کی بھی تاریخ بھری پڑی ہے، تاریخ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ سکھ دور میں اعلیٰ اور قدیم عمارات کو گرا دیا گیا، مسجدیں اور مدرسے بند کر دئیے گئے اور انہیں مال گودام بنا دیا گیا، اس ظلم کے خلاف ہزاروں مسلمان خاندان ہجرت کر کے کشمیر چھوڑ گئے، کہا جاتا ہے کہ اُس وقت کشمیر کی آبادی جو کہ 20 لاکھ تھی کم ہو کر 14 لاکھ ہو گئی ، رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد گلاب سنگھ کشمیر کا گورنر بنا، یہ وہی گلاب سنگھ تھا جس نے 1825ء میں رنجیت سنگھ کے مخالفوں کو قتل کیا تھا اور اسی بنا پر اس کو جموں کی جاگیر عطا ہوئی تھی۔ کشمیر پر 1819ء تک مسلمانوں کی حکومت تھی ، رنجیت سنگھ کی طرف سے قبضے کے بعد کشمیری مسلمانوں پر ظلم کا ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ 1846ء میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کر کے سکھوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا، 16مارچ 1846ء کو امر تسر میں حکومت برطانیہ اور سکھ حکمران راجہ گلاب سنگھ کے مابین ایک معاہدہ طے پایا کہ گلاب سنگھ حکومت برطانیہ کی اطاعت قبول کرتا ہے اور 75 لاکھ روپے انگریز سرکار کو ادا کرتا رہے گا ، اطاعت کی نشانی کے طور پر معاہدہ میں لکھا گیا کہ ہر سال ایک گھوڑا، 12بکریاںاور 3جوڑے کشمیری شالوں کے تاج برطانیہ کی خدمت میں پیش کئے جاتے رہیں گے۔ 75لاکھ کی وصولی کیلئے گلاب سنگھ نے مسلمان کشمیریوں پر وہ مظالم توڑے کہ تاریخ اُسے بیان کرنے سے قاصر ہے، اُس وقت 75 لاکھ توکیا 75 کروڑ سے بھی زیادہ وصولی بدمعاشی کے بل بوتے پر کی جاتی رہی۔ 1925ء میں جب مہاراجہ ہری سنگھ تخت پر بیٹھا تو اُس نے کہا کہ اب مسلمانوں پر مظالم نہیں ہوں گے ، ان کی طرف سے عام معافی کا اعلان کیا گیا مگر وہ سب کچھ زبانی کلامی تھا مسلمان بدستور ظلم و جبر کی چکی میں پستے رہے ۔1930ء میں ہندوستان میں آل انڈیا مسلم کشمیر کانفرنس قائم کی گئی جس کے سرکردہ رکن علامہ اقبال بھی تھے ، اس موقع پر انگریز حکمرانوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کشمیر میں سکھوں کو مسجدوں کی بے حرمتی کرنے اور سرکاری گودام بنانے سے روکا جائے، بیگار کا انسداد کیا جائے ، مسلمانوں کی جائیدادوں پر قبضوں سے روکا جائے، اغوا ، ڈاکہ اور مسلمانوں کا قتل عام بند کیا جائے۔ تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ 1931ء میں سکھوں کی طرف سے قرآن مجید کی بے حرمتی پر مسجد خان معلی سری نگر میں ایک لاکھ مسلمان اکٹھے ہوئے اور سکھوں کے بڑھتے مظالم کے خلاف احتجاج کیا۔ 15 اگست 1947ء کو مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان یا ہندوستان سے فی الحال الحاق نہ کرنے کا اعلان کیا، مہاراجہ نے مستقل الحاق کے لئے مہلت طلب کی اور پاکستان سے حالات جوں کے توں رکھنے کا معاہدہ کر لیا۔ یہ معاہدہ محض پاکستان کو فریب دینے کے لئے تھا، ورنہ اس کی نیت ہندوستان سے الحاق کرنے کی تھی جس کا بعد میں اس نے ثبوت بھی دیا،اب اس کے سامنے دو مسئلے تھے ، اول یہ کہ اتنی بڑی مسلمان آبادی کا کیا کرے ، دوم کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کے لئے کوئی جغرافیائی جواز موجود نہیں تھا، مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کرنے کے لئے اس نے وسیع تر قتل و غارت گری کا منصوبہ بنایا اور اپنی مسلم رعایا کو سکھ ڈوگرہ فوجیوں اور مسلح ہندو غنڈوں سے بے دریغ کٹوایا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تقسیم کے وقت کشمیر کے مسلمانوں کی اکثریت کو پامال کرتے ہوئے کشمیر کے سکھ مہاراجوں نے جو غلط قدم اٹھایا کشمیر کے مسلمان اس کی سزا آج بھی بھگت رہے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر بھارت نے ظلم و بربریت کی انتہاکر دی اور کشمیر کے بہت بڑے حصے پر قبضہ کر لیا، پاکستان نے کشمیری مسلمانوں کا دفاع کیا اور بھارت کو ناکوں چنے چبوا دئیے، پوری ریاست میں آزادی کی جنگ چھڑنے سے بھارت خود ہی اس مسئلے کو اٹھا کر اقوام متحدہ میں لے گیا، جنوری 1948ء کو سلامتی کونسل نے ایک کمیشن مقرر کر دیا جسے ’’اقوام متحدہ کا کمیشن برائے پاک و ہند‘‘ کہا جاتاہے۔ اس کمیشن نے 13 اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کو مندرجہ ذیل قرار داد پیش کی جسے پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں نے قبول کر لیا۔ نمبر 1جنگ بندی کی جائے اور خط متارکہ جنگ قائم کی جائے۔ نمبر 2 پوری ریاست سے فوجوں کا انخلاء کیا جائے اور نمبر 3 اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزادانہ رائے شماری کرائی جائے۔ مگر افسوس کہ بھارت نے آج تک ان قرار دادوں پر عمل نہیں کیا اُلٹا فوجوں کے انخلاء کی بجائے بھارت نے مسلسل فوجیوں کی تعداد بڑھائی اور کشمیر میں ہمیشہ سے جارحیت کرتا آ رہا ہے ، اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ میں مسئلہ کشمیر پر ثالثی کیلئے تیار ہوں ، امریکی صدر کو کشمیر میں ہونے والے حالات و واقعات کا ادراک بھی ہونا چاہئے۔