یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان کے اکثر علاقوں میں کورونا سے متاثرہ نئے افراد کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے۔ کاروبار کی بندش، نقل و حرکت کی آزادی اور سماجی میل ملاپ کے سلسلے میں کورونا نے جس طرح ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں اس ماحول میں یہ اطلاع حوصلہ دینی ہے۔ لاہور میں ایکسپو سنٹر کے قرنطینہ مرکز میں ایک بھی مریض موجود نہیں۔ میو ہسپتال اور دیگر بڑے ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے مختص بیڈز خالی ہورہے ہیں اور تشویشناک حالت والے مریضوں کی تعداد میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ 16 ہسپتالوں میں صرف 63 مریض رہ گئے ہیں۔ اسلام آباد‘ کوئٹہ اور پشاور میں بھی متاثرین کی تعداد میں کمی بتائی جا رہی ہے۔ کراچی اپنی آبادی اور مسائل کے باعث وبائی امراض کے حوالے سے خطرناک شہر بن جاتا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومت کے مابین بعض انتظامی فیصلوں پر اختلاف دکھائی دیا لیکن دونوں خلوص نیت سے وبا کا مقابلہ کر رہے ہیں لہٰذا سندھ حکومت کے اقدامات کا نتیجہ بھی وبا کی شدت میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ اچھی بات یہ ہے اس شہر میں متاثرین کی تعداد میں کمی اطمینان بخش سطح پر تو نہیں آئی لیکن اب تیز رفتار پھیلائو میں کسی حد تک اتار معلوم ہونے لگا ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کورونا سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 51 ہزار 625 ہو گئی ہے۔ ان میں سے 5 ہزار 255 افراد اس وبا کا مقابلہ نہ کر سکے اور جاں بحق ہو گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ کے وسط تک یومیہ 5 سے 6 ہزار افراد میں کورونا ہونے کی رپورٹس مل رہی تھیں اب یہ تعداد کم ہو کر 2 سے 3 ہزار یومیہ تک پہنچ گئی ہے۔ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بھی تین ہندسوں سے گھٹ کر دو ہندسوں میں آ گئی ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ کورونا متاثرین کی مجموعی تعداد کا 64 فیصد شفایاب ہو چکا ہے۔ کورونا کی وبا طبی ماہرین اور عام شہریوں کے لیے اجنبی تھی۔ اس وبا کی شدت اور اسے قابو کرنے کے متعلق مستند معلومات کی کمی نے پوری دنیا میں ہنگامی صورت حال پیدا کردی۔ ترقی یافتہ اور پسماندہ ریاستوں کو بیک وقت اس حملے کا سامنا تھا۔ ہر ملک نے کورونا سے نمٹنے کے لیے لاک ڈائون کو حفاظتی تدبیر کے طور پر اختیار کیا۔ سماجی فاصلہ رکھنا‘ جراسیم کش محلول سے ہاتھ دھونا‘ ناک اور منہ کو ماسک سے ڈھانپنا اور بلاضرورت گھر سے نہ نکلنا بچائو کے لیے فائدہ مند بتایا گیا۔ ان سب تدابیر پر عمل کرنا ضروری تھا اور عملدرآمد سماجی سطح پر قوم کے نظم و ضبط کا مطالبہ کرتا تھا۔ امریکہ اور بعض بڑے یورپی ممالک میں وبا کو سنجیدہ نہ لینے کا نتیجہ سنگین صورت میں برآمد ہوا۔ نیوزی لینڈ جیسے ممالک نے بہت جلد اس وبا سے نجات حاصل کرلی۔ پاکستان چین کا ہمسایہ ہے‘ چین کے بعد دوسرے ہمسائے ایران میں کورونا شدت پکڑ گیا۔ ان دونوں ممالک سے روزانہ سینکڑوں پاکستانی آتے اور جاتے ہیں۔ تفتان کے بارڈر سے وطن واپس آنے والے بعض زائرین سے یہ وائرس مقامی افراد کو منتقل ہوا۔ ایئرپورٹس پر ناقص تشیخصی نظام کی وجہ سے کئی متاثرہ مسافر وائرس سمیت اپنے گھر چلے گئے۔ جب تک حکومت ضروری آلات اور انتظامات کا اہتمام کرتی وبا شدت پکڑ چکی تھی۔ حکومت نے لاک ڈائون کے دوران غریب اور دیہاڑی دار افراد کے لیے احساس کفالت پروگرام شروع کیا۔ بعدازاں اس خدشے کے تحت کہ کہیں لوگ بھوک سے مرنے نہ لگیں تعمیرات اور چند شعبوں کو کھولنے کی اجازت دے دی۔ اس موقع پر تاجر برادری نے حکومت کو کوسنا شروع کردیا۔ وبا کے ایام میں ذمہ داری اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی بجائے خودکشیوں کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ احتجاج کا اعلان کیا جانے لگا۔ حکومت نے جب بازاروں اور مارکیٹوں کو کھولنا کورونا کے پھیلائو میں اضافے کا موجب قرار دیا تو عدالت عظمیٰ سے رجوع کرلیا گیا۔ حکومت کو عدالتی حکم پر عید سے چند روز قبل بازار اور مارکیٹیں کھولنا پڑیں۔ تاجروں کی اس ہٹ دھرمی کا نتیجہ عید کے فوراً بعد کورونا کے متاثرین کی تعداد میں ہوشربا اضافے کی شکل میں ظاہر ہوا۔ بعض دیگر انتظامی اقدامات نے کورونا کے انسداد میں مدد دی۔ عوام کے سامنے کورونا پھیلنے اور اس میں کمی کی وجوہات آ چکی ہیں۔ انہیں جان لینا چاہیے کہ احتیاط سے کام نہ لیا تو وبا دوبارہ خطرناک ہو سکتی ہے۔ چند ہفتوں بعد ملک بھر میں محرم الحرام کا آغاز ہورہا ہے۔ یوم علیؓ کے موقع پر جس طرح بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلوس نکالا گیا اس سے کورونا پھیلا۔ حکومت مجالس اور ذوالجناح کے جلوس کے منتظمین کو اعتماد میں لے کر اس سلسلے میں منصوبہ بندی کرے۔ عبادت گاہوں کے لیے پہلے ہی ایس او پیز ترتیب دیئے جا چکے ہیں۔ کورونا کی وبا نے انسانی زندگی کے لیے خطرات پیدا کردیئے ہیں۔ کسی ویکسین یا مخصوص دوا کی دستیابی تک ہمیں حال ہی کے تجربوں سے مفید ثابت ہونے والی تدابیر پر عمل پیرا رہنا ہوگا۔ کورونا متاثرین کی تعداد میں کمی کا عمل جاری رکھنے کے لیے تمام اداروں اور شہریوں کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ معمول کی زندگی کی طرف پلٹنے سے پہلے ہمیں اپنے طرز عمل کو ذمہ دارانہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔