الیکشن پاکستان میں پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی حکومت بناتی۔ روایتی انداز میں وزراء کا انتخاب کیا جاتا۔ حکومت کے قدم مضبوط کرنے کے لیے اسمبلی میں پہنچنے والی زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ بھی کیا جاتا رہا۔ ہر نئی حکومت سے عوامی توقعات لوڈشیڈنگ‘ مہنگائی‘ اور بے روز گاری‘ غربت کے خاتمے تک محدود ہوتیں۔ الیکشن 2018ء کے بعد صورت حال مگر مختلف ہے نیا پاکستان اور تبدیلی کا نعرہ دینے والے کپتان سے پاکستانیوں نے وہ امیدیں وابستہ کر رکھی ہے جو شاید پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں کسی حکومت سے نہیں کی گئیں۔ پاکستان 64فیصد نوجوان آبادی کے ساتھ ایشیا کا دوسرا بڑا youngestملک ہے۔64فیصد آبادی 30سال سے نیچے ہے جبکہ 29فیصد کی عمریں 15سے 29سال کے درمیان ہیں۔ یہی وہ نوجوان ووٹرز ہے جس نے عمران خان کی شاندار کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد نوجوانوں کی سیلبریشن ختم ہونے میں نہیں آ رہی سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر پڑھے لکھے ‘ نوجوان ہمہ وقت نت نئی پوسٹیں لگانے میں مصروف ہیں جو ساری عمران خان کی کرز میٹک شخصیت کے گرد گھومتی ہیں۔ نوجوان طبقہ عمران خان کو ایک Larger than life heroکے طور پر دیکھ رہا ہے۔ قومی انتخابات کے بعد حکومت بنانے والی اکثریتی سیاسی پارٹیوں اور اس بار کی پی ٹی آئی میں یہی فرق ہے کہ پاکستانی خصوصاً نوجوان عمران خان کو ایک سیاستدان سے بڑھ کر ایک نجات دھندہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ایک آئیڈیل اور ایک انسپریشنل آئیکون کے طور پر ان سے توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں۔ یہ سب احساس میں نے اس بات چیت سے اخذ کیا جو مختلف عمروں کے نوجوانوں سے بات چیت کر کے مجھے ملا۔ نوجوانوں کا عمران خان کو ایک نجات دھندہ کے طور پر دیکھنا اور گاہے انہیں قائد اعظمؒ کی سطح کا لیڈر سمجھنا‘ قائد اعظمؒ کی حیات سے عمران خان کی زندگی کے مختلف ادوار کی مماثلت تلاش کرنا یہ سب ایسی مائونٹ ایورسٹ جیسی توقعات اور امیدیں جو شاید پہلے کسی سیاستدان سے وابستہ نہیں کی گئیں۔ مجھے تو یہ خدشہ ہے کہ اگر پاکستان کی روایتی سیاست میں عمران خان بھی وہ کردار ادا نہ کر سکے جس کی توقع ان سے کی جا رہی ہے تو ان جذباتی نوجوانوں کا کیا ہو گا؟ اپنے آئیڈیل کے چکنا چور ہونے اور خوابوں کے بکھرنے سے انکے احساس پر کیسے کیسے زخم لگیں گے۔ شاید میں اس لیے ایسے سوچتی ہوں کہ میں بھی ایک نوجوان خواب دیکھنے والے جذباتی نوجوان کی حیثیت سے اس صحرا سے گزری ہوں۔ ہم نے ہر تبدیلی کے ساتھ امیدوں کے جہان وابستہ کئے خواب دیکھے اور امیدیں بکھرتی رہیں۔ خواب ٹوٹتے رہے ایک آس نے دامن مگر پھر بھی نہ چھوڑا۔ اس ایک آس کے باوجود پاکستانی سیاست کے زمینی حقائق‘ مجبوریاں ‘ مصلحتوں اور مفاد کی شرم ناک تاریخ خدشوں کو جنم دیتی ہے یہ خوف دامن گیر ہوتا ہے کہ عمران خان سے وابستہ امیدوں کے نخل اگر اس بار بھی سیاسی مصلحتوں کی آندھیوں میں ثمر آور نہ ہو سکے تو پھر کیا ہو گا اور اس بار تو عوام کی توقعات بھی غیر معمولی ہیں اس لیے کہ سوچ کے اس راستے پر انہیں کپتان نے ڈالا ہے۔ ٭ میرے نوجوانو میں تمہیں نیا پاکستان دوں گا۔ ٭ احتساب میری ذات سے شروع ہو گا۔ ٭ دو نہیں ایک پاکستان ٭وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کریں گے ٭نوجوانوں کو 3کروڑ نوکریاں دیں گے۔ ٭غریب اور پسے ہوئے طبقے کو اوپر اٹھائیں گے۔ ٭ پورے ملک میں ایک نظام تعلیم ہو گا ٭سادگی اختیار کریں گے۔ ٭ کرپشن کا خاتمہ کریں گے۔ ٭ تبدیلی آئے گی نہیں تبدیلی آ گئی ہے۔ سڑکوں کی بجائے ہیومن ریسورس کو ترقی دیں گے۔ تعلیم اور صحت پر پیسہ لگائیں گے اسی سے ملتے جلتے وعدے۔ گزشتہ حکومتوں نے بھی کیے اسی قسم کے خواب اس سے پہلے بھی سیاسی رہنمائوں نے دکھائے لیکن یہاں فرق یہ ہے یہ سب کچھ اب عمران خان کہہ رہا ہے جسے اس کے ووٹر اور سپورٹر ایک روایتی اور عام سیاسی رہنما سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ اور پھر کپتان کی پہلی وکٹری سپیچ جس طرح سادگی اور بے ساختگی کا مرقع تھی اس نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔ پاکستان کے متوقع وزیر اعظم نے کلف شدہ شلوار قمیض پہنا نہ ویسٹ کوٹ کا اہتمام کیا۔ بس سلوٹ زدہ سادہ سا کاٹن کا کرتا شلوار اور پرچی سے مبرا بات کرنے کا بے ساختہ سادہ انداز۔ جن وعدوں کو دھرایا گیا وہ سب پاکستانیوں کے دل کی آواز تھے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کپتان کس طرح پاکستان کے روایتی سیاسی ماحول میں غیر روایتی سیاست کی طرح ڈالیں گے! سر دست تو جہانگیر ترین حکومت بنانے کے معاملات طے کرنے میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ کپتان سے اصول پسندی کی توقع رکھنے والوں کو اب ان کے اردگرد نااہل اور نیب زدہ سیاستدانوں کی موجودگی کھٹکتی ہے۔ پاکستان کا 64فیصد نوجوان طبقہ جس نے اپنی امیدیں کپتان کی جھولی میں ڈال دیں وہ ہر اس بات پر اپنے ہیرو کا احتساب کریں جو ان کے اصول منشور اور وعدوں سے ہٹ کر ہو گی۔ اب کپتان کے لیے کڑا مرحلہ ہے ان کا ہر ہر قدم اب عوامی احتساب کی زد میں ہو گا۔22برس کی سیاسی جدوجہد ایک طرف اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران کی حیثیت سے ان کا نیا سیاسی سفر ایک طرف 22برس کی سیاسی جدوجہد میں عمران نے ہمیشہ حکومتوں کے لیے ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے۔ ان کی خامیوں کوتاہیوں‘ چوریوں بے اصولیوں اور کرپشن پر صدائے احتجاج بلند کی ہے اور اب حکومت بنانے کے بعد ان کو بھی ایسے ہی سخت چیلنجز کا سامنا ہو گا۔لیکن میری رائے میں ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان نوجوانوں کی امیدوں اور توقعات پر پورا اترنا ہو گا جو انہیں مسیحا شخصیت سمجھتے ہیں جو انہیں اپنا آئیڈیل مانتے ہیں اور جنہوں نے کپتان کو ایک غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک رہنما سمجھ کر ان پر ایک نجات دھندہ کی طرح اعتماد کیا۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو 3کروڑ نوکریوں کے منتظر ہیں جن کی جوانی کا کندن بے روزگاری کے ہاتھوں پیتل ہوتا جا رہا ہے۔ناانصافی اور عدم مساوات پر مبنی نظام جن کے خوابوں کو روز کچلتا ہے ان نوجوانوں کو بہتر پاکستان دینا ان کی امیدوں کے آبگینوں کو ٹھیس لگنے سے بچانا ہی اب کپتان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کالم طویل ہو رہا ہے بس ادا جعفری کے اس شہر پر اختتام کرتی ہوں: جھولی میں کچھ نہیں ہے اک آس ہی رہے ایسی خبر سنا کہ دلوں کا زیاں نہ ہو!