درد کسی نے دیکھا ہو تو وہ محسوس کرے پیار میں کوئی رہتا ہو تو وہ محسوس کرے اس کی یہ بے فکری میرے فکر کا باعث ہے اس نے مجھ کو سوچا ہو تو وہ محسوس کرے بے نیازی حد سے گزری کوئی کیا کرے۔ سخن کی زبان میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشہ بنا دیا۔ ہوا ریزہ ریزہ جو دل ترا اسے جوڑ جوڑ کے مت دکھا وہ جو اپنے حسن میں مست ہے اسے آئینے کا خیال کیا۔ اس آئینے کا وہ محل نہیں کہ جس کا تذکرہ اقبال نے کیا کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں۔اس کے باوجود آج ہم مہنگائی سے ہٹ کر بات کریں گے کہ جس مسئلے کا حل ہی ہمارے پاس نہیں تو اس میں خود کو ہلکان کرنے کا کیا فائدہ۔ بات بے حسی کی حد تک چلی جائے تو کوئی کیا کرے۔ چلیے چھوڑیے ہم ذرا مزے مزے کی باتیں کرتے ہیں وہی جو اقبال نے کہا ہے کہ اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل، لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔ ویسے ان حالات میں عقل تو ویسے ہی کام کرنا چھوڑ گئی ہے ۔ بہرحال ہم تو صرف دل کی بات کریں گے وہ بات جو دل کو آسودہ کرے مثلاً ہمیں ایک بات نے بہت ہی لطف دیا کہ حلقہ 133کے الیکشن میں صالحین کی ایک جماعت پیپلز پارٹی کا ساتھ دے گی ہم یہ نہیں کہتے کہ پیپلز پارٹی میں کوئی برے لوگ ہیں اس نیک نام بھی ہیں مگر پھر بھی صالحین کا ان کے ساتھ مل کر اسلام پھیلانا اچھا لگا۔یہ بات بھی دلچسپ لگی کہ پیپلز پارٹی یہاں سے جیتنا چاہتی ہے تو یہ دم خم جو اچانک پیدا ہوا ہے کسی پیغام کی غماضی کرتا ہے وگرنہ آپ کو یاد ہو گا کہ لاہور کے ایک حلقے میں انہوں نے غالباً دو ہزار یا دو سو ووٹ لئے تھے لیکن ایلکشن میں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے: کسی کے آنے سے ساقی کے ایسے ہوش اڑے شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشے میں آپ ای ووٹنگ مشین پر بھروسہ رکھیں یہ تو محبوب کی آنکھوں جیسا کرشمہ ہے: اس نے تو آنکھ آنکھ میں ایسے بھلے سخن کہے ہم نے تو اس کے پائوں میں سارا کلام رکھ دیا سچ مچ کوئی نہیں جانتا کہ کب سب کچھ کایا کلپ ہو جائے۔دوسری دل آویز بات چوہدھری سرور کا شو ہے کہ انہوں نے الگ سٹیج لگا رکھا ہے کہ کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیان کے لئے۔ بلکہ میرے جہاں کے لئے وہ ذرا ترقی پسند ہیں یہ ادب والی ترقی پسندی جیسے جالب صاحب اپنی ترقی پسند کہتے تھے بلکہ اس کا مفہوم بیان کرنے کے لئے مجھے انگریزی کا لفظ ambitionلکھنا پڑے گا۔اس کا اظہار وہ خود بھی کر چکے ہیں کہ انہیں نہایت چالاکی سے کھڈے لائن لگایا گیا ہے ان کی بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ صدر اور گورنر کے عہدے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ ادبی یا سوشل پروگرامز میں جا کر صدارت کر لی یا شادیوں میں حکومتی نمائندگی کر لی۔ چوہدری سرور یقیناً کچھ کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے کوئی تو کچھ کرے وہ بے چارے تو صاف پانی پراجیکٹ بھی اچھی طرح نہیں کر سکے۔پچھلی حکومت میں تو انہوں نے قبضہ مافیا سے تنگ آ کر استعفیٰ دیا تھا۔اب کے وہ خود قبضے میں ہیں۔اب وہ پوری طرح سیاست کرنے کے موڈ میں ہیں اور اپنی الگ پارٹی تشکیل دے سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ انہوں نے مقصد براری کے لئے لنکا ڈھانے کی کوشش کی ہے اور پھر بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، ان کی بات کو حکومت کے خلاف ایک حوالہ بنایا جا رہا ہے۔ محترم سراج الحق نے بھی یہی کہا ہے کہ چند ڈالروں کے عوض خود مختاری بیچ دی گئی اور اس کا خود گورنر نے اعتراف کیا ہے۔تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں مگر اتنا ہے کہ چوہدری سرور کیا کرتے ہیں اور کس کے لئے کرتے ہیں سب کچھ خود ہی سامنے آ جائے گا۔بہرحال آئیں بائیں شائیں ہونے والی ہے ایسے ہی احمد مشتاق یاد آئے: میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں،یہ ہوا، یہ رات اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے اب ایک اور دلچسپ خبر کی طرف چلتے ہیں کہ شادی سے پہلے کترینہ نے پنجابی سیکھنے کے لئے ٹیچر رکھ لیا ہے۔پنجابی والوں کی بھی لاٹری نکل آئی ہے۔مجھے یہ خبر پڑھتے ہی وہ پروگرام یاد آ گیا جس میں ضمیر جعفری صاحب حفیظ جالندھری پر مضمون پڑھتے ہوئے یہ بتا رہے تھے کہ حفیظ صاحب نے جرمن خاتون سے اردو میں شادی کی اور سلوک پنجابی میں کیا۔کہتے ہیں کہ وکی کوشل سے شادی ہونے جا رہی ہے تو پنجاب میں راز و نیاز کے لئے پنجابی زبان ضروری تھی۔مجھے یہ سب اس لئے ہی اچھا لگا کہ میں بھی پنجابی ہوں اور دکھ کی بات یہ کہ پنجابی کو پنجابیوں نے ہی مار رکھا ہے۔پنجابیوں نے کافی عرصے سے اردو پر قبضہ کر رکھا ہے آپ نام گنتے جائیے معروف و مقبول تخلیق کار پنجابی ہی ہیں جو اردو لکھنے میں پنجابی بھول گئے۔ویسے بھی پنجابی لکھنے والوں کو حکومت کی طرف سے مشکوک جانا گیا۔ مجھے اپنی میڈم شائستہ سونو یاد آئی کہ جو یا تو انگریزی بولتیں یا پنجابی۔یہ عجیب امتیاز تھا۔جو بھی ہے منیر نیازی پنجابی بولتے خوب لگے گی: بھل جاناں واں اردو تے انگریزی وی جد اوہنوں پنجابی بولدے سننا واں ایک اور دلچسپ خبر اعظم سواتی کے حوالے سے ہے کہ انہوں نے بھی الیکشن کمشن سے معافی مانگ لی ۔ویسے یہ طرز عمل عام ہے بلکہ عادت بن چکا کہ معافی مانگنے کی لت پوری کرنے کے لئے کوئی حرکت کر لی جائے۔ایک اور خبر نے ہمیں متوجہ کیا کہ سال کا آخری سورج گرہن پانچ دسمبر کو ہے مگر وہ پاکستان میں نظر نہیں آئے گا۔بھائی جان ہم نے یہ گرہن دیکھ کر کیا کرنا ہے۔یہاں تو سب کچھ گہنایا ہوا موجود ہے یعنی ہر شے کو گرہن لگا ہوا ہے۔دیکھیے میں نے آپ کو باتوں سے لبھایا اور ذکر تک نہیں کیا کہ ڈالر 178سے بھی اوپر چلا گیا اور مہنگائی 8.35فیصد بڑھ چکی۔ بس ایک ہی حل ہے کہ حکومت اس مہنگائی کو کم کرنے کے بارے میں سوچنا بند کر دے کہ وہ جب بھی سوچتے ہیں ایسے ہی سوچتے ہیں اور اس کے عوام سوچتے چلے جاتے ہیں ۔