اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے حوالے سے بہت کچھ کہا، لکھا جا چکا۔ سوشل میڈیا پر تھوڑا بہت دال دلیہ ہم بھی کرتے رہے۔ الیکشن جیتنے کی وجوہات کیاہیں، عمران خان پر کیا اثر پڑے گا، مارچ ہوگا نہیں ہوگا، وغیرہ وغیرہ پر بھی خاصی بات ہو رہی ہے۔ ان بحثوں سے ہٹ کر چندمختلف پہلوئوں کی طرف قارئین کی توجہ دلانا چاہوں گا۔ میرے حساب سے اتوار والے ضمنی الیکشن حکومت کو کرانے ہی نہیں چاہیے تھے۔ حکمران اتحاد پی ڈی ایم نے اوور سمارٹ بننے کی کوشش کی، بالی وڈ محاورے کے مطابق ڈیڈھ شانا(سیانا)بننا۔ تحریک انصاف کئی مہینے پہلے استعفے دے چکی تھی، سوا سو سے زیادہ استعفے سپیکر قومی اسمبلی کے پاس پڑے ہیں اور وہ مزے سے انہیں اپنی میز کی دراز میں سجائے بیٹھے ہیں۔ سترہ جولائی کو پنجاب میں بیس صوبائی نشستوں پر ضمنی الیکشن کا نتیجہ پی ڈی ایم اچھی طرح دیکھ چکی تھی، انہیں اندازہ تھا کہ عوام کی اکثریت اس وقت عمران خان کے ساتھ ہیں۔ ایسے میں گیارہ استعفے منظور کرنے کا مشورہ کس کا تھا؟ یہ مشورہ دینے والے کو پکڑنا چاہیے، مگر اس طرح تو پوری قیادت زد میں آ جائے گی۔ دراصل یہ اجتماعی دانش کا مظاہرہ کیا گیا۔ ن لیگ، جے یوآئی، پیپلزپارٹی اور اے این پی کی قیادت اور ان کے الیکشن ماہرین کی مشاورت سے یہ پلان تیار کیا گیا۔کہتے ہیںپی ڈی ایم کے ایک اجلاس میں عمران خان کی جارحانہ سیاست سے نمٹنے کا مشورہ ہوا تو اتفاق رائے ہوا کہ اسے سیاست میں تھکایا جائے ۔ اس کے لئے خان پر مختلف کیسز بنانے کا سوچا گیا تاکہ وہ مختلف شہروں کی عدالتو ںمیں پیشیاں بھگتاتا رہے اور اسے لانگ مارچ کی فرصت ہی نہ ملے۔ گیارہ استعفے منظور کرنے کا خیال بھی تب آیا۔ الیکشن تو نو حلقوں میں کرانے تھے ، دو مخصوص نشستوں کو ڈال لیا یا ڈلوا دیا گیا کہ تحریک انصاف کی ایک خاتون رکن اسمبلی کو سزا دینا مقصود تھا۔ حلقے منتخب کرنے سے پہلے پورا ہوم ورک کیا گیا۔ پچھلے الیکشن کا ڈیٹا منگوا کر دیکھا کہ تحریک انصاف کی کون سی نشستوں پر جیت کا مارجن سب سے کم ہے۔ پھر یہ دیکھا گیا کہ وہاں پی ڈی ایم جماعتوں کے امیدواروںکا مجموعی ووٹ تحریک انصاف سے بیس تیس ہزار زیادہ ہو۔ مقصد یہی تھا کہ تحریک انصاف کے امیدوار کے مقابلے میں جب پی ڈی ایم کا مشترکہ امیدوار آئے گا تو ووٹ تقسیم نہیں ہوگا۔ پیپلزپارٹی نے ملیر اور لیاری کی ایک ایک ہاری ہوئی نشست کی تجویز دی۔ ملیر اور لیاری ہمیشہ سے پی پی کا گڑھ رہا ہے۔ عام انتخابات میں غیر متوقع شکست ہوئی تھی، پیپلزپارٹی کو یقین تھا کہ اس بار مشترکہ امیدوار اور اچھی مینجمنٹ کے ذریعے دونوں سیٹیں جیت لیں گے۔ ایک سیٹ کورنگی سے چنی گئی ، یہ ایم کیو ایم کی فرمائش تھی۔ مسلم لیگ ن نے دانستہ لاہور سے کوئی سیٹ نہ منتخب کی، حالانکہ یہاں سے تحریک انصاف کے تین ایم این اے ہیں حماد اظہر، کرامت کھوکھر اور شفقت محمود۔ ن لیگ کو خطرہ تھا کہ اگر ان میں سے کسی کا استعفا منظور کیا گیا تو تحریک انصاف پھر یہ سیٹ جیت لے گی اور یوں لاہور کے حوالے سے انہیں نفسیاتی برتری حاصل ہوجائے گی۔ فیصل آباد میں فرخ حبیب کی جیت کا مارجن کم تھا اور وہاں سے عابد شیرعلی کو اکاموڈیٹ کرنا بھی مقصود تھا، اس لئے یہ حلقہ منتخب ہوا۔ اس حلقے میں جیت کے لئے رانا ثنااللہ گروپ اور عابدشیرعلی میں صلح بھی کرائی گئی۔، یہ اور بات کہ کوئی فائدہ نہیں ہوا اور عابد شیر علی پچیس ہزار ووٹوں سے ہار گیا۔ ننکانہ میں اعجاز شاہ کوآئوٹ کرنے کے لئے چُنا گیا۔ دیہی حلقہ ہے، یہاں منصب فیملی کاگہرا اثرورسوخ ہے ، امید تھی کہ یہ سیٹ ن لیگ جیت لے گی۔ کے پی میں جے یوآئی اور اے این پی کوخوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ پشاور کا جو حلقہ منتخب کیا گیا، وہاں سے پچھلی بار تحریک انصاف نے زیادہ مارجن سے کامیابی لی، مگر جے یوآئی اور اے این پی وغیرہ کا خیال تھا کہ ہم نے پشاور میں کم بیک کر لیا ہے، جے یوآئی نے بلدیاتی انتخابات میں مئیر پشاور کا الیکشن بھی جیتا ہے۔ غلام احمد بلور کو اس سیٹ پر اکاموڈیٹ کرنا بھی ایک مقصد تھا۔ اے این پی کی فرمائش پر چارسدہ سے بھی استعفا منظور کیا گیا۔ چارسدہ میں ولی خان کا آبائی حلقہ ولی باغ شامل ہے۔ ولی خان کا پوتا اور اے این پی کا موجودہ صدر ایمل ولی خان یہاں سے الیکشن لڑنا چاہتا تھا، اس لئے یہ حلقہ بھی خالی کرایا گیا۔ چارسدہ میں جے یوآئی کا ووٹ بینک بھی ہے، اٹھاسی میں مولانا حسن جان نے اسی سیٹ پر ولی خان کو ہرایا تھا۔ اب جے یوآئی اور اے این پی میں گاڑھی چھنتی ہے، اس لئے توقع تھی کہ دونوں کے ووٹ بینک متحد ہو کر آسانی سے تحریک انصاف پر غالب آ جائیں گے۔ مردان سے جے یوآئی نے بلدیاتی انتخابات میں خاصے ووٹ لئے۔ وہاں پر بھی اے این پی اور جے یوآئی کے ساتھ ن لیگی اور پی پی کا ووٹ بینک اکھٹا ہونے کی صورت میں توقع تھی کہ آسانی سے جیت لیں گے۔ تمام حربے ناکام ہوئے اور تینوں نشستیں تحریک انصاف کو ملیں۔ جو لوگ عمران خان پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اس کی وجہ سے اتنا خرچ ہوا اور اب وہ حلف نہیں لے گا تو دوبارہ الیکشن کرانا پڑے گا۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ موقعہ خود حکومت کی نام نہاد ہوشیاری نے پیدا کیا۔ جہاں سو سے زیادہ دیگر استعفے پڑے ہیں، یہ بھی رکھے رہتے، کیا ہونا تھا؟تب ایک روپیہ بھی ان الیکشن پر خرچ نہ ہوتا۔ عمران خان کی بڑی سمارٹ موو یہ تھی کہ وہ سب نشستوں پر کھڑا ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مشورہ پرویز خٹک نے دیا۔ اگر درست ہے تو خٹک صاحب کی سیاسی ہوشیاری کی داد بنتی ہے۔ پی ڈی ایم کا پلان یہی تھا کہ تحریک انصاف کنفیوز ہوجائے، وہ الیکشن لڑنا نہیں چاہیں گے ، مگر حلقے بھی خالی نہیں چھوڑ سکتے۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہوگا کہ ایسا امیدوار کہاں سے ڈھونڈیں جو پیسہ لگا کر الیکشن لڑے، پوری محنت کرے اور جیتنے کے بعد اسمبلی میں بھی نہ جائے۔ یہ مسئلہ عمران خان کے تمام حلقوں سے لڑنے نے حل کر دیا۔ پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کو سرپرائز دیا، جواب میں ان کی موو نے پی ڈی ایم کو ششدر رکھ دیا۔ باقی یہ سب باتیں ہیں کہ عمران خان نہ ہوتا تو یہ ہوجاتا ، وہ ہوجاتا۔ کچھ نہیں ہونا تھا۔ ووٹ عمران خان کے بیانیہ کو پڑا ہے، ان کی بطور امیدوار شخصیت کو نہیں کہ انہوں نے تو حلف لینا ہی نہیں۔ ووٹر کو پتہ تھا کہ عمران خان کبھی ان کے حلقے سے رکن اسمبلی بن کر نہیں رہے گا۔ یہ علامتی الیکشن تھا اور ان کے ووٹر نے اسی علامت کو ووٹ دیا۔ عمران خان کی جگہ کوئی بھی ہوتا، اسے ووٹ پڑنے تھے۔ عمران خان کے ہونے کا البتہ یہ فائدہ ہوا کہ خرچ کم ہوا۔ پی ڈی ایم کو اصل فکر یہ کرنی چاہیے کہ ان کے پاس کوئی مقبول عوامی بیانیہ نہیں ۔ عمران خان کے پاس بیانیہ ہے اور عوام اسے پزیرائی بھی دے رہے ہیں۔ پی ڈی ایم والوں کو ابھی تک یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ بیانیہ کا مطلب زیادہ بولنا اور طنز کے تیر چلانا نہیں۔ وہ شائد چرب زبانی ہی کو بیانیہ بنانا سمجھتے ہیں۔ اسی لئے مریم نواز اور کبھی مریم اورنگ زیب مخصوص نسوانی کوسنوں اور طنزیہ زہریلے حملوں پر زور دیتی ہیں ۔ اس طرح مگر بیانیہ نہیں بنتا، بلکہ عوامی ردعمل اور نفرت بڑھتی ہے۔ بیانیہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا کوئی موقف ہو اور حالات بھی اسے سپورٹ کر رہے ہوں۔ عمران خان کا بیانیہ غلط ہے یا درست ، حالات نے اسے سپورٹ کیا اور بیانیہ مضبوط ہوگیا۔ عمران خان کہتا تھا کہ یہ این آر او لینا چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایم نے نیب ترامیم کر کے ، اپنے لیڈروں کی رہائی کا راستہ صاف کر کے یہ ثابت کیا۔ عمران خان نے وزیراعظم پر تنقید کی کہ ان کا رویہ عالمی سطح پر معذرت خواہانہ ہے۔ بدقسمتی سے یکے بعد دیگر ے ایسے کئی مواقع آئے جب جناب وزیراعظم نے اس الزام کی صداقت ثابت کر دی۔شہباز شریف اکثر بیشتر کنفیوذ نظر آئے،وہ منہ سے پھسل جانے والے جملے’’ بیگرز کانٹ چوزرز‘‘ کے آفٹر شاکس سے ہی نہیں نکل پا رہے۔ پی ڈی ایم نے دعویٰ کیا کہ وہ تجربہ کار ہیں اور معیشت سنوار دیں گے۔ ملک کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ عمران خان نے ان پر الزام لگایا کہ یہ اقتدار کے خواہش مند ہیں۔ پچھتر رکنی وفاقی کابینہ نے یہ الزام بھی ثابت کر دیا۔ پی ڈی ایم سے حکومت سنبھالی جا رہی ہے نہ وہ عوامی بیانیہ بنا پائے ، اوپر سے دوسری بار ضمنی الیکشن کرا کر شکست کو خود دعوت دی۔سرائیکی کی ایک کہاوت ہے کہ مقدر بَھیڑے (خراب )ہوں تو اونٹ پر بیٹھے شخص کو بھی درندہ زخمی کر دیتا ہے۔ پی ڈی ایم کے لئے اقتدار کا سنگھاسن بھی ایسا ہی تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ پنجابی میں اس کے لئے ایک مزے کا رسیلا سا محاورہ ہے، مگر چلیں چھوڑیں، ہارے ہوئے لوگوں سے کیا مذاق کرنا۔